بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

فلٹر پلانٹ کا کاروبار کرنا


سوال

 فلٹر پلانٹ کا کاروبار کرنا شرعی اعتبار سے کیسا ہے؟

جواب

ویسے تو پانی ان اشیاء میں سے ہے جن کو اللہ پاک نے ہر ایک کے لیے مباح بنایا ہے، اس کی خرید وفروخت منع ہے، لیکن  اگر کوئی شخص پانی کو   برتن، مشکیزہ، ٹینک،کین وغیرہ میں محفوظ کرلے یا اس کو فلٹر کرے تو وہ اس کی ملکیت قرار پاتا ہے۔ اب اس کو اختیار ہے خواہ مفت دے یا مال کے عوض بیچے، اس صورت میں ازروئے شرع اس کی خرید وفروخت کی جاسکتی ہے ۔اگر پانی جمع کیا ہوا نہیں، بلکہ کنویں وغیرہ میں ہے اور کنواں کسی خاص مد کے لیے وقف نہیں ہے تو کنویں وغیرہ پر آکر پانی لینے والوں کوروکنا شرعاً جائز نہیں۔

جیسا کہ جامع ترمذی شریف میں حدیث مبارک ہے :

عن ابی هریرة ان النبی صلی الله علیه وسلم قال: لا یمنع فضل الماء ۔

ترجمہ:سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: زائد پانی کو نہ روکاجائے۔

الفتاوى الهندية (3/ 121):

لا يجوز بيع الماء في بئره ونهره، هكذا في الحاوي، وحيلته أن يؤاجر الدلو والرشاء، هكذا في محيط السرخسي۔ فإذا أخذه وجعله في جرة أو ما أشبهها من الأوعية فقد أحرزه فصار أحق به، فيجوز بيعه والتصرف فيه كالصيد الذي يأخذه، كذا في الذخيرة، وكذلك ماء المطر يملك بالحيازة،كذا في محيط السرخسي.

وأما بيع ماء جمعه الإنسان في حوضه ذكر شيخ الإسلام المعروف بخواهر زاده في شرح كتاب الشرب: أن الحوض إذا كان مجصصاً أو كان الحوض من نحاس أو صفر جاز البيع على كل حال وكأنه جعل صاحب الحوض محرز الماء بجعله في حوضه ولكن يشترط أن ينقطع الجري حتى لا يختلط المبيع بغير المبيع۔

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144112201506

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں