بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

فلم، سیریل، اور ڈاکومنٹری وڈیوز کا ترجمہ کرنے اور اس پر اجرت لینے کا حکم


سوال

میں پیشہ کے لحاظ سے ایک مترجم ہوں۔ کبھی کبھار ترجمے کے لیے فلم اور سیریل یا ڈاکیومنٹری ویڈیو آتے ہیں۔ کیا ان کا ترجمہ شرعی حیثیت سے جائز ہے؟

جواب

واضح رہے مترجم ہونے کی حیثیت سےکسی بھی جائز چیز کی ترجمانی  کرکے اس پر اجرت لینا جائز ہے، البتہ ایسی چیزیں جن کا دیکھنا یا سننا ہی حرام ہے، یاایسی باتیں جو معاشریں کے لیے بے حیائی یا نوجوان نسل کی گم راہی کا سبب بنیں، از روئے شرع ایسی باتوں کی ترجمانی کرنا اور اس پر اجرت لینا ناجائز ہوگا۔ 

بصورتِ مسئولہ فلم، سیریل، یا مختلف ڈاکو مینٹری ویڈیوز جان دار اور انسانی تصاویر پر مشتمل ہونے کی وجہ سے ان کا دیکھنا ہی فی نفسہ حرام ہے، اسی طرح معتبر ذرائع سے موصول اطلاع کے مطابق مذکورہ چیزیں دیگر شرعی و عرفی مفاسد مثلاً میوزک، من گھڑت  جھوٹے واقعات، اور خواتین کی بے حیاء تصاویر  پر بھی مشتمل ہوتی ہیں جو معاشرے پر ایک منفی اثر ڈالنے کے ساتھ ساتھ نوجوان نسل کو اسلامی تہذیب و اقدار سے دور کرنے کا ذریعہ بھی بن رہی ہیں، لہذا ایسے فلم، یا سیریل، یا مذکورہ مفاسد پر مشتمل ڈاکو مینٹری ویڈیوز کا ترجمہ کرنا اور اس پر اجرت لینا ناجائز ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ ایک ایسے گناہ کے کام کی بنیاد بھی رکھنا ہے کہ جو بھی مذکورہ گناہ کے کام کرے گا (یعنی فلم وغیرہ دیکھے گا) مترجم کا بھی اس گناہ میں حصہ ہوگا، جیسے کہ حدیث شریف میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: "اور جس شخص نے مسلمانوں میں کسی برے طریقے کی ابتدا کی اور اس کے بعد طریقے پر عمل کیا گیا تو اس طریقے پر عمل کرنے والے کا گناہ بھی اس شخص کے نامہ اعمال میں لکھا جائےگا اور عمل کرنے والے کے گناہ میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔" (مرقاۃ المفاتیح، كتاب العلم، ج:1، ص:292، ط:دارالفكر. بيروت)

البتہ جو ڈاکو مینٹریز شرعی اور عرفی مفاسد سے خالی ہوں ان کا ترجمہ کرنے اور اس کی اجرت لینے کی اجازت ہوگی، یعنی جان دار کی تصاویر، من گھڑت قصے، میوزک اور بے حیائی کی باتوں وغیرہ  پر مشتمل نہ ہوں۔

الموسوعة الفقهية میں ہے:

"وَلاَ يَجُوزُ اسْتِئْجَارُ كَاتِبٍ لِيَكْتُبَ لَهُ غِنَاءً وَنَوْحًا ؛ لأَِنَّهُ انْتِفَاعٌ بِمُحَرَّمٍ."

(الإِْجَارَةُ عَلَى الْمَعَاصِي وَالطَّاعَاتِ، ج:1، ص:290، ط:اميرحمزه كتب خانه)

الفقہ الاسلامی میں ہے:

"ولایجوز الاستئجار علی المعاصي کاستئجار الإنسان للعب و اللهو المحرم ... لأنه استئجار علی المعصیة والمعصیة لاتستحق بالعقد."

(شروط صحة الإجارة، ج:5، ص:3817، ط:دارالفكر)

فتاوی شامی میں ہے

"وماکان سببًا لمحظور محظور... ونظیره کراهة بیع المعازف لان المعصیة تقام بها عینها."

(كتاب الحظر والاباحة، ج:6، ص:350، ط:ایچ ایم سعید) 


فتاوی شامی میں ہے:

"وظاهر كلام النووي في شرح مسلم: الإجماع على تحريم تصوير الحيوان، وقال: وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره، فصنعته حرام بكل حال؛ لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى، وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم وإناء وحائط وغيرها".

( كتاب الصلاة، مطلب: مكروهات الصلاة، ج:1، ص:667، ط:ايج ايم سعيد)

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم... ومن سن في الإسلام سنة سيئة كان عليه وزرها ووزر من عمل بها من بعده من غير أن ينقص من أوزارهم شيء»".

(كتاب العلم، ج:1، ص:292، ط:دارالفكر. بيروت)

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

 «وَعَنْ نَافِعٍ - رَحِمَهُ اللَّهُ - قَالَ: كُنْتُ مَعَ ابْنِ عُمَرَ فِي طَرِيقٍ، فَسَمِعَ مِزْمَارًا، فَوَضَعَ أُصْبُعَيْهِ فِي أُذُنَيْهِ وَنَاءَ عَنِ الطَّرِيقِ إِلَى الْجَانِبِ الْآخَرِ، ثُمَّ قَالَ لِي بَعْدَ أَنْ بَعُدَ: يَا نَافِعُ! هَلْ تَسْمَعُ شَيْئًا؟ قُلْتُ: لَا، فَرَفَعَ أُصْبُعَيْهِ مِنْ أُذُنَيْهِ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ فَسَمِعَ صَوْتَ يَرَاعٍ، فَصَنَعَ مِثْلَ مَا صَنَعْتُ. قَالَ نَافِعٌ: فَكُنْتُ إِذْ ذَاكَ صَغِيرًا» . رَوَاهُ أَحْمَدُ، وَأَبُو دَاوُدَ.

وَفِي فَتَاوَى قَاضِي خَانْ: أَمَّا اسْتِمَاعُ صَوْتِ الْمَلَاهِي كَالضَّرْبِ بِالْقَضِيبِ وَنَحْوِ ذَلِكَ حَرَامٌ وَمَعْصِيَةٌ لِقَوْلِهِ عَلَيْهِ السَّلَامُ: " «اسْتِمَاعُ الْمَلَاهِي مَعْصِيَةٌ، وَالْجُلُوسُ عَلَيْهَا فِسْقٌ، وَالتَّلَذُّذُ بِهَا مِنَ الْكُفْرِ» " إِنَّمَا قَالَ ذَلِكَ عَلَى وَجْهِ التَّشْدِيدِ وَإِنْ سَمِعَ بَغْتَةً فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ، وَيَجِبُ عَلَيْهِ أَنْ يَجْتَهِدَ كُلَّ الْجَهْدِ حَتَّى لَا يَسْمَعَ لِمَا رُوِيَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَدْخَلَ أُصْبُعَهُ فِي أُذُنَيْهِ".

( بَابُ الْبَيَانِ وَالشِّعْرِ ، الْفَصْلُ الثَّالِثُ، ج:9، ص:51، ط: مكتبه حنيفيه )

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144204200439

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں