بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

فلم انڈسٹری میں کام کرنے کا حکم


سوال

میں فلم انڈسٹری میں کام کرنا چاہتا ہوں،  تو کیا یہ کام مجھے کرنا چاہیے؟

 

جواب

بصورتِ مسئولہ   فلم انڈسٹری سے بننے والی فلم، سیریل، یا مختلف ڈاکو مینٹری ویڈیوز ، جان دار اور انسانی تصاویر پر مشتمل ہونے کی وجہ سے ان کا دیکھنا ہی فی نفسہ حرام ہے، نیز بننے والی  وڈیوز دیگر شرعی و عرفی مفاسد مثلاً میوزک، من گھڑت  جھوٹے واقعات، اور خواتین کی حیا باختہ  تصاویر  پر بھی مشتمل ہوتی  ہیں جو معاشرے پر ایک منفی اثر ڈالنے کے  ساتھ  ساتھ نوجوان نسل کو  اسلامی تہذیب و  اقدار  سے دور کرنے کا ذریعہ بھی بن رہی ہیں، لہذا ایسی  انڈسٹری میں کسی بھی طرح کا کام کرنا شرعًا  گناہوں  کے ارتکاب اور اس پر معاونت کی وجہ سے ناجائز وحرام ہے، نیز اس کے ساتھ ساتھ ایک ایسے گناہ کے کام کی بنیاد بھی رکھنا ہے کہ جو بھی مذکورہ گناہ کے کام کرے گا (یعنی فلم وغیرہ دیکھے گا) تو اس انڈسٹری میں کام کرنے والے فرد کا بھی اس گناہ میں حصہ ہوگا، جیسے کہ حدیث شریف میں ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من سن في الإسلام سنة حسنة فله أجرها وأجر من عمل بها من بعده من غير أن ينقص من أجورهم شيء ومن سن في الإسلام سنة سيئة كان عليه وزرها ووزر من عمل بها من بعده من غير أن ينقص من أوزارهم شيء» . رواه مسلم."

(مشکوۃ المصابیح، کتاب العلم، الفصل الاول، رقم الحدیث:210، ج:1، ص:73، ط:المکتب الاسلامی)

ترجمہ: آپ ﷺ نے فرمایا: "اور جس شخص نے مسلمانوں میں کسی برے طریقے کی ابتدا کی اور اس کے بعد طریقے پر عمل کیا گیا تو اس طریقے پر عمل کرنے والے کا گناہ بھی اس شخص کے نامہ اعمال میں لکھا جائےگا اور عمل کرنے والے کے گناہ میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔

لہذا مذکورہ انڈسٹری سے وابستہ ہونے کے بجائے کوئی جائز اور حلال روزگار تلاش کرنا چاہیے جس میں برکت بھی رہےگی اور ان شاء اللہ،  اللہ تعالیٰ  کی مدد بھی ہوگی۔

الموسوعة الفقهية میں ہے:

"وَلاَ يَجُوزُ اسْتِئْجَارُ كَاتِبٍ لِيَكْتُبَ لَهُ غِنَاءً وَنَوْحًا ؛ لأَِنَّهُ انْتِفَاعٌ بِمُحَرَّمٍ."

(الإِْجَارَةُ عَلَى الْمَعَاصِي وَالطَّاعَاتِ، ج:1، ص:290، ط:اميرحمزه كتب خانه)

الفقہ الاسلامی وادلّتہ  میں ہے:

"ولایجوز الاستئجار علی المعاصي کاستئجار الإنسان للعب و اللهو المحرم ... لأنه استئجار علی المعصیة والمعصیة لاتستحق بالعقد."

(شروط صحة الإجارة، ج:5، ص:3817، ط:دارالفكر)

فتاوی شامی میں ہے

"وماکان سببًا لمحظور محظور... ونظیره کراهة بیع المعازف لان المعصیة تقام بها عینها."

(كتاب الحظر والاباحة، ج:6، ص:350، ط:ایچ ایم سعید) 

فتاوی شامی میں ہے:

"وظاهر كلام النووي في شرح مسلم: الإجماع على تحريم تصوير الحيوان، وقال: وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره، فصنعته حرام بكل حال؛ لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى، وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم وإناء وحائط وغيرها".

( كتاب الصلاة، مطلب: مكروهات الصلاة، ج:1، ص:667، ط:ايج ايم سعيد)

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

 «وَعَنْ نَافِعٍ - رَحِمَهُ اللَّهُ - قَالَ: كُنْتُ مَعَ ابْنِ عُمَرَ فِي طَرِيقٍ، فَسَمِعَ مِزْمَارًا، فَوَضَعَ أُصْبُعَيْهِ فِي أُذُنَيْهِ وَنَاءَ عَنِ الطَّرِيقِ إِلَى الْجَانِبِ الْآخَرِ، ثُمَّ قَالَ لِي بَعْدَ أَنْ بَعُدَ: يَا نَافِعُ! هَلْ تَسْمَعُ شَيْئًا؟ قُلْتُ: لَا، فَرَفَعَ أُصْبُعَيْهِ مِنْ أُذُنَيْهِ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ فَسَمِعَ صَوْتَ يَرَاعٍ، فَصَنَعَ مِثْلَ مَا صَنَعْتُ. قَالَ نَافِعٌ: فَكُنْتُ إِذْ ذَاكَ صَغِيرًا» . رَوَاهُ أَحْمَدُ، وَأَبُو دَاوُدَ.

وَفِي فَتَاوَى قَاضِي خَانْ: أَمَّا اسْتِمَاعُ صَوْتِ الْمَلَاهِي كَالضَّرْبِ بِالْقَضِيبِ وَنَحْوِ ذَلِكَ حَرَامٌ وَمَعْصِيَةٌ لِقَوْلِهِ عَلَيْهِ السَّلَامُ: " «اسْتِمَاعُ الْمَلَاهِي مَعْصِيَةٌ، وَالْجُلُوسُ عَلَيْهَا فِسْقٌ، وَالتَّلَذُّذُ بِهَا مِنَ الْكُفْرِ» " إِنَّمَا قَالَ ذَلِكَ عَلَى وَجْهِ التَّشْدِيدِ وَإِنْ سَمِعَ بَغْتَةً فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ، وَيَجِبُ عَلَيْهِ أَنْ يَجْتَهِدَ كُلَّ الْجَهْدِ حَتَّى لَا يَسْمَعَ لِمَا رُوِيَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَدْخَلَ أُصْبُعَهُ فِي أُذُنَيْهِ".

( بَابُ الْبَيَانِ وَالشِّعْرِ ، الْفَصْلُ الثَّالِثُ، ج:9، ص:51، ط: مكتبه حنيفيه )

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144212202053

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں