مرنے والے کی نمازوں اور روزوں کے فدیہ کی رقم کا جو حساب بنے، کیا اس رقم کو کسی کو حج ، عمرہ کرانے، یا کسی مسجد یا مدرسہ کی تعمیر یا اخراجات یا کسی مستحق یا ملازم کی چھت ڈلوانے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے؟
واضح رہے کہ مرحوم کی نماز اور روزے کے فدیہ کا مصرف وہی ہے جو زکوٰۃ کا مصرف ہے، لہذا زکوٰۃ کی طرح فدیہ کی ادائیگی کے لیے بھی یہ ضروری ہے کہ اسے کسی مسلمان ، مستحقِ زکوٰۃ شخص کو بغیر عوض کے مالک بناکر دیا جائے ، اس لیے رفاہی اور تعمیراتی کاموں میں یہ رقم خرچ کرنا جائز نہیں ہے، کیوں کہ اس میں تملیک (کسی کو مالک بنانا) نہیں پایا جاتا۔
لہذا صورت مسئولہ میں فدیہ کی رقم کو مسجد اور مدرسہ کی تعمیر، یا کسی مستحق کی چھت کی تعمیر یا کسی کے حج او ر عمرہ کے انتظام میں خرچ کرنا جائز نہیں ہے، ہاں اگر زکوٰۃ کے مستحق شخص کو مالک بناکر رقم دے دی جائے اور وہ اس سے خود حج یا عمرہ کرلے یا اپنے گھر کی چھت ڈلوالے تو یہ جائز ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"باب المصرف أي مصرف الزكاة و العشر... (هو فقير، وهو من له أدنى شيء) أي دون نصاب أو قدر نصاب غير نام مستغرق في الحاجة.
(قوله: أي مصرف الزكاة والعشر)... وهو مصرف أيضاً لصدقة الفطر والكفارة والنذر وغير ذلك من الصدقات الواجبة، كما في القهستاني."
(2/ 339، كتاب الزكاة، باب مصرف الزكاة والعشر، ط: سعید)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144310101097
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن