میری بڑی بہن گردے خرابی کے مرض / ڈائیلسز کی وجہ سے چند روز قبل انتقال کرگئیں ، اپنی بیماری کے آخری چند سال وہ فرض روزے اسی تکلیف کیوجہ سے نہ رکھ سکیں ،کیا ان کے روزوں کے فدیہ کی مد میں میں بریانی کی دیگیں پکوا کر ایسے مدرسہ میں رہائشی طلباء کرام کو کھانے کے طور پر بھیج سکتا ہوں ، جو اس ادارہ میں اللہ کے دین کا علم حاصل کررہے ہوں؟
اگر مرحومہ نے روزوں کے فدیہ کی وصیت کی ہو اور مرحومہ پر قرض نہ ہو تو ان کے متروکہ مال کے ایک تہائی سے وصیت نافذکی جائے گی، ان پر کوئی قرض ہو تو قرض کی ادائیگی کے بعد بقیہ ترکے کے ایک تہائی سے وصیت نافذ کی جائے گی۔ اور اگر وصیت نہ کی ہو تو آپ اپنی خوش دلی سے اپنے مال سے ان کےروزوں کا فدیہ ادا کرنا چاہتے ہیں تو کر سکتے ہیں، اور اللہ کی کریم ذات سے امید ہے کہ ان کے فدیہ میں وہ رقم قبول ہو جائے گی۔
نیز فدیہ بھی مقدار اور مصرف کے اعتبار سے صدقہ فطر کی طرح ہے، یعنی ایک فوت شدہ روزے کے فدیہ کی ادائیگی کے لیے ضروری ہے کہ کسی مستحقِ زکات شخص کو دو وقت کا کھانا کھلایا جائے یا پونے دو کلو گندم یا اس کاآٹا یا اس کی قیمت مالک بناکر دی جائے۔
لہٰذا صورتِ مسئولہ میں مدرسے کے رہائشی طلبہ جو مستحق زکات بھی ہوں، ان کو ہر روزے کے بدلے دو وقت کا کھانا کھلانے سے بھی ایک ایک روزہ کا فدیہ ادا ہوجائے گا۔
فتاوی شامی میں ہے:
"ثم اعلم أنه إذا أوصى بفديه الصوم يحكم بالجواز قطعا لأنه منصوص عليه وأما إذا لم يوص فتطوع بها الوارث فقد قال محمد في الزيادات: إنه يجزيه إن شاء الله تعالى فعلق الإجزاء بالمشيئة لعدم النص وكذا علقه بالمشيئة فيما إذا أوصى بفدية الصلاة لأنهم ألحقوها بالصوم احتياطًا لاحتمال كون النص فيه معلولًا بالعحز فتشمل العلة الصلاة و إن لم يكن معلولاً تكون الفدية برًّا مبتدأً يصلح ماحيًا للسيئات فكان فيها شبهة كما إذا لم يوص بفدية الصوم فلذا جزم محمد بالأول و لم يجزم بالأخيرين فعلم أنه إذا لم يوص بفدية الصلاة فالشبهة أقوى."
(الدر المختار مع رد المحتار باب قضاء الفوائت ۲/ ۷۲ ط: سعید)
وفیه أیضًا:
"(و لو مات و عليه صلوات فائتة و أوصى بالكفارة يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر) كالفطرةو كذا حكم الوتر) و الصوم و إنما يعطى (من ثلث ماله )."
(حاشية رد المحتار على الدر المختار، باب قضاءالفوائت ۲/ ۷۲ ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144402101470
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن