بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

3 ربیع الثانی 1446ھ 07 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

فدیہ کی رقم ساس کو دینا


سوال

کیا فدیہ اپنی ساس کو دیا جا سکتا ہے؟

جواب

فدیہ ان ہی لوگوں کو دینا جائز ہے جن کو زکوٰۃ دینا جائز ہے، ساس اگر زکوٰۃ کی مستحق ہو تو اس کو زکوٰۃ دینا جائز ہے، اس لیے ساس  کے مستحق ہونے کی صورت میں اس کو فدیہ دینا بھی جائز ہے۔

مستحق ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی ملکیت میں قرض منہا کرنے کے بعد  بنیادی ضرورت اور استعمال سے زائد اتنا مال یا سامان نہ ہو جس کی مالیت ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت تک پہنچ جائے، اور وہ ہاشمی (سید ، عباسی) نہ ہو۔

واضح رہے کہ روزے کا فدیہ اس صورت میں دیا جاتاہے جب کوئی شخص بہت زیادہ بڑھاپے یا دائمی مرض کی وجہ سے روزہ رکھنے کی طاقت نہ رکھتاہو، سردی کے ایام میں بھی روزہ نہ رکھ سکتا ہو، اور مریض ہونے کی صورت میں ماہر دین دار ڈاکٹر کی رائے یہ ہو کہ دوبارہ صحت یاب نہیں ہوگا، تو ایسا مریض یا بوڑھا شخص ایک روزے کے بدلے ایک صدقہ فطر (اس سال 2020ء - 1441ھ میں کراچی اور اس کے مضافات کے لیے 100 روپے) کی مقدار کسی فقیر کو دے گا، اسے فدیہ کہا جاتاہے۔ اگر فدیہ ادا کرنے کے بعد مریض کو روزے رکھنے پر قدرت حاصل ہوگئی تو جتنے روزے چھوٹے ہوں ان کی قضا کرنا ہوگی، فدیہ میں دی گئی رقم نفلی صدقہ ہوجائے گی۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144109201702

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں