بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فدیہ کی رقم کس مد میں دی جائے؟


سوال

 کسی خاتون کی عمر 69سال ہو اور انہو ں نے لاشعوری طور پر تقریبًا 40 سال نماز نہیں پڑھی،جب اسلام کی روح کو سمجھیں تو نماز پڑھنا شروع کی اور قضا  بھی ادا کرنا شروع کی، لیکن ایک محتاط اندازے کے مطابق 30سال کی نمازیں اب بھی باقی ہیں، انہوں نے اولاد کو اپنے مرنے کے بعد فدیہ دینے کی وصیت کردی ہے اور اس کے لیے ایک جائیداد جس کی قیمت ایک محتاط اندازے کے مطابق 65لاکھ روپے ہےمختص کردی ہے، سوال یہ ہے کہ کیا پوری جائیداد بیچ کر اولاد فدیہ ادا کرنے کی پابند ہے؟یا ایک تہائی مال سے فدیہ ادا کیا جائے گا؟ اور فدیہ کن مدات میں ادا کیا جائے گا؟صرف راشن کی مد میں؟یا کسی اسپتال/مدرسے میں بھی بھیجا جاسکتا ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب مذکورہ خاتون نے اپنے مرنے کے بعد ذمے  میں واجب الادا  نمازوں کا فدیہ ادا کرنے کی وصیت کردی ہے تو ان کے انتقال کے بعد ان کے ترکہ کے ایک تہائی مال میں سے ان کے ذمے  واجب الادا   نمازوں کا  فدیہ ادا کرنا ان  کے  ورثاء   پر  لازم ہوگا، لیکن ایک تہائی سے زائد سے فدیہ ادا کرنا واجب نہیں ہوگا، البتہ ادا کرنے سے ادا ہوجائے گا اور میت پر بڑا احسان ہوگا۔

 نماز کا فدیہ بھی مقدار اور مصرف کے اعتبار سے صدقہ فطر کی طرح ہے، یعنی ایک فوت شدہ نماز کے فدیہ کی ادائیگی کے  لیے ضروری ہے کہ کسی مستحقِ زکات شخص کو دو وقت کا کھانا کھلایا جائے یا پونے دو کلو گندم یا اس کاآٹا یا اس کی قیمت مالک بناکر دی جائے، لہٰذا نماز کا فدیہ اگر کھانا کھلانے کے بجائے پونے دو کلو گندم کی قیمت کی ادائیگی کے ذریعہ ادا کیا جائے تو اس کی ادائیگی کے  لیے ضروری ہے کہ کسی مستحقِ زکات شخص کو  وہ قیمت یا اس قیمت سے خریدی گئی اشیاء مالک بناکر دی جائیں۔

لہٰذا   فدیہ کی رقم کے ذریعے غریبوں کو راشن بھی دیا  جاسکتا ہے، نیز فدیہ کی رقم  مدارس کے مستحق زکات طلبہ کو بھی دی  جاسکتی ہے۔ فدیہ کی رقم ہسپتال میں دینے کا حکم یہ ہے کہ جس ہسپتال میں زکات اور فدیہ وغیرہ کی رقم یا اس سے اشیاء (دوا وغیرہ) خرید کر مستحقِ زکات شخص کو مالک بناکر نہیں دی جاتیں، بلکہ زکات اور فدیہ وغیرہ کی رقم تعمیرات، بیڈ، مشنری وغیرہ کی خریداری یا ڈاکٹر کی فیس وغیرہ میں بغیر تملیک صرف کی جاتی ہے وہاں فدیہ کی رقم دینا جائز نہیں ہے، تاہم اگر کوئی ادارہ  و ہسپتال محض وکیل کے طور پر زکات اور فدیہ کی رقم وصول کرکے اہلِ سنت کے مقررہ مصارف میں متعینہ افراد  کی مکمل تحقیق وتفتیش کے بعد  زکات لینے والے  مسلمانوں کے  لیے ضروری احکام کی رعایت وضمانت کے ساتھ ان کی رضامندی سے ان کے علاج معالجہ پر   صرف (خرچ)  کرے تو ایسے ادارے کو فدیہ کی رقم وکیل بناکر  دینا جائز ہے۔ یعنی اگر ہسپتال انتظامیہ زکات اور فدیہ کی رقم  یا دوا وغیرہ مستحق مریض  یا اس کے وکیل کو مالک بناکر ادا کردیتی ہے، یا مریض سے اجازت لے کر اس کی طرف سے بطور وکیل ڈاکٹر کی فیس ادا کی جاتی ہے تو ایسے اسپتال میں فدیہ کی رقم دینے سے فدیہ ادا  ہوجائے گا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 339):

"باب المصرف:

 أي مصرف الزكاة والعشر، وأما خمس المعدن فمصرفه كالغنائم (هو فقير، وهو من له أدنى شيء) أي دون نصاب أو قدر نصاب غير نام مستغرق في الحاجة.

(قوله: أي مصرف الزكاة والعشر) يشير إلى وجه مناسبته هنا، والمراد بالعشر ما ينسب إليه كما مر فيشمل العشر ونصفه المأخوذين من أرض المسلم وربعه المأخوذ منه إذا مر على العاشر أفاده ح. وهو مصرف أيضا لصدقة الفطر والكفارة والنذر وغير ذلك من الصدقات الواجبة كما في القهستاني".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 368):

" (وصدقة الفطر كالزكاة في المصارف) وفي كل حال (إلا في) جواز (الدفع إلى الذمي) وعدم سقوطها بهلاك المال وقد مر.

(قوله: في المصارف) أي المذكورة في آية الصدقات إلا العامل الغني فيما يظهر ولا تصح إلى من بينهما أولاد أو زوجية ولا إلى غني أو هاشمي ونحوهم ممن مر في باب المصرف، وقدمنا بيان الأفضل في المتصدق عليه (قوله: وكل حال) ليس المراد تعميم الأحوال مطلقا من كل وجه فإن لكل شروطا ليست للأخرى؛ لأنه يشترط في الزكاة الحول والنصاب النامي والعقل والبلوغ وليس شيء من ذلك شرطا هنا بل المراد في أحوال الدفع إلى المصارف من اشتراط النية واشتراط التمليك فلا تكفي الإباحة كما في البدائع هذا ما ظهر لي تأمل".

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144206200387

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں