بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 ربیع الاول 1446ھ 04 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

فدیہ کی رقم ادا کرنا شوہر کی ذمہ داری ہے یا نہیں؟


سوال

فدیہ کی رقم ادا کرنا کیا شوہر کی ذمہ داری ہے؟

جواب

اگر کسی خاتون کے ذمے قضا  نمازیں اور روزے لازم ہوں اور ادا کیے بغیر ان کا انتقال ہوجائے اور انہوں نے فدیہ ادا کرنے کی وصیت کی ہو تو اس صورت میں ان کے  کل مال کے ایک تہائی حصہ سے فدیہ کی رقم نکالی جائے گی، اگر تمام قضا نمازوں اور روزوں کا فدیہ ایک تہائی ترکے میں سے ادا ہوجائے تو بہتر، اگر مکمل ادا نہ ہو تو بقیہ نمازوں اور روزوں کا فدیہ ادا کرنا شوہر یا دیگر ورثہ کے ذمے لازم نہیں ہوگا، تاہم اگر شوہر یا کوئی اور وارث بطورِ تبرع مرحومہ کی بقیہ فوت شدہ نماز و روزوں کی طرف سے فدیہ دینا چاہیں تو یہ ان کی طرف سے احسان ہوگا۔ 

اور اگرمرحومہ نے فدیہ کی وصیت نہیں کی ہو تو شرعاً شوہر یا دیگر ورثاء پران کی نماز اور روزہ کا  فدیہ ادا کرنا لازم نہیں، البتہ اگر شوہر یا دیگر ورثاء  از خود باہمی رضامندی سے یاآپ اپنی جانب سے ان کی نماز، روزوں کا فدیہ  ادا کردیں تو امید ہے کہ مرحومہ آخرت کی باز پرس سے بچ جائیں گی۔

واضح رہے کہ ایک نماز کا فدیہ ایک صدقہ فطر (پونے دو کلو گندم یا اس کا آٹا یا اس کی قیمت) ہے، دن رات میں پانچ نمازیں فرض اور ایک نماز (وتر) واجب ہے، یعنی یومیہ چھ فدیے ادا کرنے ہوں گے۔ اور ایک روزے کا فدیہ ایک صدقہ فطر ہے، جتنے روزے چھوٹے ہوں، ان کی تعداد اگر معلوم ہے تو اتنے ہی صدقہ فطر ادا کرنے ہوں گے، ورنہ ہر ماہ تیس دن کے حساب سے شمار کیا جائے گا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(ولو مات وعليه صلوات فائتة وأوصى الكفارة يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر) كالفطرة  (وكذا حكم الوتر) والصوم، وإنما يعطي (من ثلث ماله).

(قوله: وإنما يعطي من ثلث ماله) أي فلو زادت الوصية على الثلث لايلزم الولي إخراج الزائد إلا بإجازة الورثة".

 (ج:2/ ص:72،73، باب قضاء الفوائت/ط:سعید)

 فتاوی عالمگیری میں ہے:

"إذا مات الرجل وعليه صلوات فائتة فأوصى بأن تعطى كفارة صلواته يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر وللوتر نصف صاع ولصوم يوم نصف صاع من ثلث ماله".

(1 / 125، الباب الحادي عشر في قضاء الفوائت، ط: رشیدیه)

مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح    میں ہے:

"وعليه الوصية بما قدر عليه وبقي بذمته فيخرج عنه وليه من ثلث ما ترك  لصوم كل يوم ولصلاة كل وقت حتى الوتر نصف صاع من بر أو قيمته وإن لم يوص وتبرع عنه وليه جاز ولايصح أن يصوم ولا أن يصلي عنه".

(ص: 169، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المریض، فصل في إسقاط الصلاۃ والصوم، ط: المکتبة العصریة)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144202200975

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں