بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

فدیہ کی رقم کو رفاہی کاموں میں لگانے كا حكم


سوال

ہمارے والد صاحب نے اپنی نمازوں کے متعلق اپنی وفات سے پہلے کوئی وصیت نہیں کی تھی ،ہم نے اس بارے میں دار الافتاء سے رجوع کیا  تھاتو انہوں ہماری یہ راہ نمائی فرمائی کہ ورثاء پر مرحوم کے روزوں اور نمازوں کا فدیہ دینا  لازم نہیں ہے،  مگر ورثاء اپنی خوشی سے ادا کرنا چاہیں تو یہ مرحوم پر احسان ہوگا ،الحمد للہ تمام ورثاء اس پر متفق ہیں کہ پہلے والد صاحب کی نمازوں کا فدیہ ادا کیا جائے ،ایک وارث اس کو جامعہ میں  طعام کی مد میں لگانے کو کہہ رہے ہیں، جبکہ  دوسرے ورثاء چاہ رہے ہیں کہ کسی ایسے  کام میں لگائیں جو مرحوم کے لیے مستقل صدقہ جاریہ بن جائے، تو راہ نمائی فرمائیں کہ اس رقم کو ایسی مد میں لگا لیں جس سے فدیہ بھی ادا ہو جائے اور مستقل صدقہ جاریہ بھی بن جائے ،جیسے کنواں کھدوانا یا بورنگ کا انتظام کرنا ۔

جواب

واضح رہے کہ زکوۃ  و فدیہ کے  مصارف ایک ہی ہیں  اور دونوں کی ادائیگی کے لیے  ضروری ہے کہ وہ مستحق کو    بغیر کسی عوض   کے  مالک بنا کر دی جائے، لہذا  جن صورتوں میں تملیک نہ پائی جائے (  جیسے کنواں یا بورنگ کا انتظام ،مساجد و مدارس کی تعمیروغیرہ)ان صورتوں میں فدیہ ادا نہیں ہوگا۔

لہذا صورت مسئولہ میں فدیہ کی رقم  سے کنواں یا بورنگ کا انتظام کرنے سے فدیہ ادا نہیں ہوگا  ،بلکہ مستحق کو مالک بنا کر دینا ضروری ہے ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"باب المصرف (قوله: أي مصرف الزكاة والعشر) يشير إلى وجه مناسبته هنا، والمراد بالعشر ما ينسب إليه كما مر فيشمل العشر ونصفه المأخوذين من أرض المسلم وربعه المأخوذ منه إذا مر على العاشر أفاده ح. وهو مصرف أيضا لصدقة الفطر والكفارة والنذر وغير ذلك من الصدقات الواجبة كما في القهستاني"

(کتاب الزکوۃ ،باب مصرف الزکوۃ ،ج:2،ص:339،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100108

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں