بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز کے فدیہ کی رقم سے مدرسہ کا ضروری سامان خرید کر مدرسہ کو دینے کا حکم


سوال

نماز  کے فدیہ  کی رقم سے مدرسہ کا ضروری سامان دریاں ، بینچیں  وغیرہ  خرید کر  دیا جاسکتا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ نماز کا فدیہ بھی مقدار اور مصرف کے اعتبار سے صدقہ فطر کی طرح ہے، یعنی ایک فوت شدہ نماز کے فدیہ کی ادائیگی کے  لیے ضروری ہے کہ کسی مستحقِ زکات شخص کو دو وقت کا کھانا کھلایا جائے یا پونے دو کلو گندم یا اس کاآٹا یا اس کی قیمت مالک بناکر دی جائے، لہٰذا نماز کا فدیہ اگر کھانا کھلانے کے بجائے پونے دو کلو گندم کی قیمت کی ادائیگی کے ذریعہ ادا کیا جائے تو اس کی ادائیگی کے  لیے ضروری ہے کہ کسی مستحقِ زکات شخص کو  وہ قیمت یا اس قیمت سے خریدی گئی اشیاء مالک بناکر دی جائیں۔

صورتِ  مسئولہ میں فدیہ کی رقم سے مدرسے  کا مذکورہ  ضروری سامان خرید کر مدرسہ کو  دینا جائز نہیں ہے؛ کیوں کہ اس صورت میں تملیک نہیں پائی جارہی ہے، البتہ مدرسے کے مستحق طلبہ کو  فدیہ کی  رقم یا   اس رقم سے راشن وغیرہ خرید کر دیا جاسکتا ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 339):

"باب المصرف

أي مصرف الزكاة والعشر، وأما خمس المعدن فمصرفه كالغنائم (هو فقير، وهو من له أدنى شيء) أي دون نصاب أو قدر نصاب غير نام مستغرق في الحاجة.

باب المصرف

(قوله: أي مصرف الزكاة والعشر) يشير إلى وجه مناسبته هنا، والمراد بالعشر ما ينسب إليه كما مر فيشمل العشر ونصفه المأخوذين من أرض المسلم وربعه المأخوذ منه إذا مر على العاشر أفاده ح. وهو مصرف أيضا لصدقة الفطر والكفارة والنذر وغير ذلك من الصدقات الواجبة كما في القهستاني".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 368):

" (وصدقة الفطر كالزكاة في المصارف) وفي كل حال (إلا في) جواز (الدفع إلى الذمي) وعدم سقوطها بهلاك المال وقد مر.

(قوله: في المصارف) أي المذكورة في آية الصدقات إلا العامل الغني فيما يظهر ولا تصح إلى من بينهما أولاد أو زوجية ولا إلى غني أو هاشمي ونحوهم ممن مر في باب المصرف، وقدمنا بيان الأفضل في المتصدق عليه (قوله: وكل حال) ليس المراد تعميم الأحوال مطلقا من كل وجه فإن لكل شروطا ليست للأخرى؛ لأنه يشترط في الزكاة الحول والنصاب النامي والعقل والبلوغ وليس شيء من ذلك شرطا هنا بل المراد في أحوال الدفع إلى المصارف من اشتراط النية واشتراط التمليك فلا تكفي الإباحة كما في البدائع هذا ما ظهر لي تأمل".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144206201139

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں