بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فدیہ کفارہ کا مصرف


سوال

 1- فدیہ اور کفارہ کی ادائیگی کے لیے کیا تملیک ضروری ہے؟ جب کہ فدیہ اور کفارہ کے بیان میں قرآن مجید میں "اطعام" کا لفظ وارد ہوا ہے، جس میں دسترخوان پر بٹھاکر کھانا کھلانے سے بھی فدیہ و کفارہ ادا ہوجانا چاہیے! اگر کوئی شخص رقم کی صورت میں فدیہ یا کفارہ ادا کرے تو اس میں تملیک ضروری ہونے کی صریح دلیل پیش کیجیے!

2- کسی مرحوم کی وصیت کے مطابق اس کے تہائی ترکے میں سے دی گئی رقم یا اشیاء کے بارے میں کیا حکم ہوگا؟ یعنی ان کے مصارف کیا ہوں گے؟

جواب

1۔کفارہ کی ادائیگی کے لئے تملیک اس صورت میں ضروی ہے کہ جب کفارہ اداکرنے والاشخص کفارہ نقدی یا جنس( گندم، جو وغیرہ ) کی صورت میں اداکرنا چاہتاہو، اگرکوئی  شخص کسی غریب کوکھانا کھلاناچاہے تو اس  کودسترخوان پربٹھاکر بھی کھاناکھلاسکتاہے، اس بارے میں ضابطہ یہ ہے کہ جہاں پر ایتاء کے لفظ کا ذکر ہے ، وہاں تملیک ضروری ہے اور جہاں  اطعام اور طعام کا ذکر ہے، وہاں تملیک ضروری نہیں اباحت بھی کا فی ہے۔(  دلیل حوالہ جات میں ملاحظہ فرمائیں)باقی  فدیہ اور کفارہ کے مصارف بھی وہی ہیں جو زکوٰۃ کے مصارف ہیں  یعنی   غرباء اور  مساکین  اس  کے  مصرف  ہیں۔

وصیت کے بارے میں تفصیل یہ ہے کہ اگر وصیت کی جہت متعین ہوتو پھر اسی جہت میں صرف کرنا ضروری ہے اور اگرمطلق وصیت کی ہو یا خیر کے کاموں میں خرچ کرنے کی وصیت کی ہو،تو اس کو کسی بھی کار خیر میں خرچ کیا جاسکتا ہے مثلاً عوام کےلئے پل بنانا،مسجدبنانا،شفاخانہ بنانا، پانی کا کنواں بنانا ، اسی طرح مدارس کے طلبہ پر خرچ کرنا  یہ تمام صورتیں جائز ہیں،البتہ ان مصارف می بعض کو بعض پر فیضیلت حاصل ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

(فإن عجز عن الصوم) لمرض لا يرجى برؤه أو كبر (أطعم) أي ملك (ستين مسكينا) ولو حكما، ولا يجزئ غير المراهق بدائع (كالفطرة) قدرا ومصرفا (أو قيمة ذلك) من غير المنصوص، إذ العطف للمغايرة (وإن) أراد الإباحة (فغداهم وعشاهم) ، أو غداهم وأعطاهم قيمة العشاء، أو عكسه، أو أطعمهم غداءين، أو عشاءين، أو عشاء وسحورا وأشبعهم (جاز) بشرط إدام في خبز شعير وذرة۔۔۔۔۔(ولو أباحه كل الطعام في يوم واحد دفعة أجزأ عن يومه ذلك فقط) اتفاقا (وكذا إذا ملكه الطعام بدفعات في يوم واحد على الأصح)۔۔۔۔(كما صحت الإباحة) بشرط الشبع (في طعام الكفارات) سوى القتل (و) في (الفدية) لصوم وجناية حج؛ وجاز الجمع بين إباحة وتمليك (دون الصدقات والعشر) والضابط أن ما شرع بلفظ إطعام وطعام جاز فيه الإباحة، وما شرع بلفظ إيتاء وأداء شرط فيه التمليك۔

(باب کفارۃ الظہار/ج:3/ص:478/ط:سعید)

وتحتہ فی الشامیۃ:

(قوله: أي ملك) الإطعام لا يختص بالتمليك كما سيأتي، لكن المراد به هنا التمليك وبما بعده الإباحة، ولذا قال في البدائع: إذا أراد التمليك أطعم كالفطرة، وإذا أراد الإباحة أطعمهم غداء وعشاء۔

(باب کفارۃ الظہار/ج:3/ص:478/ط:سعید)

وفيه ايضاً:

قوله: أي مصرف الزكاة والعشر)۔۔. وهو مصرف أيضا لصدقة الفطر والكفارة والنذر وغير ذلك من الصدقات الواجبة كما في القهستاني۔         

(کتاب الزکوٰۃ ج2ص339ط:سعید)

وفيه ايضاً:

ويشترط أن يكون الصرف (تمليكا) لا إباحة كما مر (لا) يصرف (إلى بناء) نحو (مسجد۔۔۔۔وكل ما لا تمليك فيه۔

                                   (كتاب الزكوٰۃ  ،باب مصرف الزکوٰۃ ج2ص344:سعید)

فتاوی تاتارخانیہ میں ہے:

وإذا أوصی بثلث ماله ﷲ تعالٰ فالوصية باطلة في قول أبي حنیفة وفي قول محمد الوصية جائزة وتصرف إلی وجوه البر وبقول محمد یفتیٰ وتصرف إلی الفقراء (وقوله) ولو أوصی بالثلث في وجوه الخیر یصرف إلی القنطرة وبناء المسجد وطلب العلم۔

 ( کتاب الوصایا، الفصل الثالث، مکتبہ زکریا دیوبند۱۹/۳۹۲-۳۹۳)

الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:

 الوصية  للہ تعالیٰ ولإعمال البر بدون تعیین جهة، تصرف في وجوه الخیر۔

( الباب الرابع، الوصایا، المبحث الثالث، المطلب الرابع، الہدیٰ انٹرنیشنل۸/۶۶)

فتاوی بزازیہ میں ہے:

 أما الوصية لمسجد کذا أو قنطرة کذا، صرف إلی عمارته و إصلاحه۔ 

(بزازیہ کتاب الوصایا زکریا جدید۳/۲۶۲)

البحرالرائق میں ہے:

وبهذا علم أن قولهم ‌شرط ‌الواقف كنص الشارع ليس على عمومه قال العلامة قاسم في فتاواه أجمعت الأمة أن من شروط الواقفين ما هو صحيح معتبر يعمل به ومنها ما ليس كذلك ونص أبو عبد الله الدمشقي في كتاب الوقف عن شيخه شيخ الإسلام: قول الفقهاء: نصوصه كنص الشارع يعني في الفهم والدلالة لا في وجوب العمل۔

(شروط الواقفین/ج:5/ص:265/ط:دارالکتاب)

فتاوی قاسمیہ میں ہے:

سوال ]۱۱۲۲۶[: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں : کہ ایک شخص نے اپنی وفات سے قبل ہزار روپیہ دے کر یہ وصیت کی کہ ان کو مسجد وغیرہ میں لگا دینا، پھر اس کا انتقال ہو گیا، اب آیا ان کو مدرسہ میں لگا دیا جاسکتا ہے یا نہیں ؟

الجواب وباللہ التوفیق: مذکورہ ہزار روپیہ مرحوم کی شرط کے مطابق مسجد میں صرف کرنا واجب ہوگا، مدرسہ میں لگانا جائز نہ ہوگا۔

                                (کتاب الوصیۃ ج25 ص 52 ط:اشرفیہ دیوبند)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144302200035

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں