بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

3 جُمادى الأولى 1446ھ 06 نومبر 2024 ء

دارالافتاء

 

موبائل اور مصحف میں دیکھ کر تلاوت کرنے میں کیا فرق ہے؟


سوال

 موبائل میں قرآن مجید کی تلاوت،آداب اور استعمال کے بارے میں راہ نمائی فرمائیں  کہ مصحف اور اس میں کیا فرق ہے؟

جواب

موبائل میں قرآن کی تلاوت کے وہی آداب ہیں جو مصحف میں تلاوت کرنے کے آداب ہیں البتہ مصحف میں دیکھ  کر تلاوت کرنا افضل ہے، اس لیے کہ مصحف کو دیکھنا، اس کو چھونا اور اس کو اٹھانا  یہ اس کا احترام ہے، اور اس میں معانی میں زیادہ تدبر کا موقع ملتا ہے، نیز  مصحف کے کسی بھی حصے کو بلاحائل چھونے کے لیے باوضو ہونا ضروری ہے، عموماً مصحف میں تلاوت سے پہلے آدمی پاک صاف اور باوضو ہوکر ادب کے ساتھ بیٹھ کر تلاوت کرتاہے، اور اس میں ادب کا زیادہ ہونا واضح ہے، اور یہ سب ثواب کا ذریعہ ہے، ظاہر ہے کہ یہ سب باتیں موبائل میں حاصل نہیں ہوتیں، اس لیے جہاں تک ہوسکے مصحف ہی سے پڑھا جائے، اگر کبھی ضرورت ہو تو موبائل سے پڑھ لیں، اللہ کی ذات سے امید ہے اس پر بھی قرآن دیکھ کر پڑھنے کا  ثواب  عطا فرمائیں گے۔ 

وضو کے بغیر قرآنِ کریم کی تلاو ت  جائز ہے، لیکن قرآنِ کریم کو ہاتھ لگانا جائز نہیں ہے، اس لیے موبائل کی اسکرین پر اگر قرآن کریم  کھلا ہوا ہو تو اسکرین کو  وضو کے بغیر چھونا جائز نہیں، کیوں کہ اسکرین پر ظاہر ہونے والے نقوش و حروف کو چھونا ایسے ہی جیسے مصحف میں لکھے نقوش و حروف کو چھونا،اس کے علاوہ  موبائل کے دیگر حصوں کو  مختلف  اطراف  سے (بلا وضو) چھونا جائز ہے۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (4/ 1487):
"وعن عثمان بن عبد الله بن أوس الثقفي عن جده قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " «قراءة الرجل القرآن في غير المصحف ألف درجة، وقراءته في المصحف تضعف على ذلك إلى ألفي درجة» ".
2167 - (وعن عثمان بن عبد الله بن أوس الثقفي عن جده قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : قراءة الرجل القرآن في غير المصحف) ، أي من حفظه (ألف درجة) ، أي ذات ألف درجة أو ثوابها ألف درجة في كل درجة حسنات، قال الطيبي: ألف درجة خبر لقوله قراءة الرجل على تقدير مضاف، أي ذات ألف درجة ليصح الحمل كما في قوله تعالى  {هم درجات} [آل عمران: 163] ، أي ذوو درجات، وأغرب ابن حجر وجعل القراءة عن تلك الألف مجازاً كرجل عدل، فتأمل (وقراءته في المصحف تضعف) بالتذكير والتأنيث مشدد العين، أي يزاد (على ذلك) ، أي ما ذكره من القراءة في غير المصحف (إلى ألفي درجة) قال الطيبي: لحظ النظر في المصحف وحمله ومسه وتمكنه من التفكر فيه واستنباط معانيه اهـ يعني أنها من هذه الحيثيات أفضل وإلا فقد سبق أن الماهر في القرآن مع السفرة البررة، وربما تجب القراءة غيبا على الحافظ حفظا لمحفوظه. قال ابن حجر: إلى غاية لانتهاء التضعيف ألفي درجة لأنه ضم إلى عبادة القراءة عبادة النظر، أي وما يترتب عليها، فلاشتمال هذه على عبادتين كان فيها ألفان، ومن هذا أخذ جمع بأن القراءة نظراً في المصحف أفضل مطلقا، وقال آخرون: بل غيبا أفضل مطلقا، ولعله عملا بفعله عليه الصلاة والسلام والحق التوسط فإن زاد خشوعه وتدبره وإخلاصه في إحداهما فهو الأفضل وإلا فالنظر لأنه يحمل على التدبر والتأمل في المقروء أكثر من القراءة بالغيب".
 فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144108200345

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں