بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فیصلہ کراکر حکم کے لیے اجرت لینے کا حکم


سوال

 ہمارے علاقے میں جب دو فریقین کے درمیان کوئی تنازعہ ہوتا ہےتووہ مقامی علماء و مفتیان کرام کی طرف رجوع کرتے ہیں پھر کچھ علماء و مفتیان کرام اس تنازعے کو شرعی طریقے پر حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر فریقین کی طرف سے کچھ علماء وکیل بنتے ہیں اور تین یا چار علماء بطور قاضی کے فیصلہ کرتے ہیں اور تقریبا تین چار گھنٹے کی مجلس ہوتی ہے،پھر ہر مجلس پر یہ مقرر شدہ وکلاء یا فیصلہ کرنے والے اجرت لیتے ہیں،اجرت کم سے کم 15 ہزار ہوتی ہے اور زیادہ ایک لاکھ تک ہوتی ہے،اور ان میں سے کچھ سکول میں ٹیچر ہوتے ہیں اور کچھ مدرسین وغیرہ، بعض اوقات صرف فیصلے کے بغیر صرف کچھ باتوں کی بیٹھک ہوتی ہے،ان پر بھی یہ لوگ پیسے لیتے ہیں، اب کیا ان کے لیے اس مجلس پر جس میں کچھ دیر کے لیے بیٹھک ہوتی ہے اجرت لینا جائز ہے؟ اور ان کو ملنے والی اجرت کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ کتنی ہونی چاہئیے؟براہ کرم ہر جزء کی الگ الگ وضاحت فرمائیں ۔

جواب

دو فریقوں کے درمیان کسی تنازعہ کا فیصلہ کرنے کو تحکیم کہتے ہیں، اور فیصلہ کرنے والے کو ثالث یا حکم کہتے ہیں، تحکیم بھی ایک قسم کی قضا ہونے کی وجہ سے طاعت (نیکی) ہے، متقدمینِ احناف نے کسی بھی طاعت پر اجرت لینے کو ناجائز قرار دیا ہے، البتہ متأخرینِ احناف نے ضرورت کی وجہ سے کچھ چیزوں کا استثنا کیا ہے جس میں سے قضا بھی ہے، چنانچہ قضا کی طرح تحکیم پر بھی اجرت لینا جائز ہے، بشرطیکہ:

ثالث میں مطلوبہ فیصلہ/مصالحت کی اہلیت  موجود ہو۔

فیصلہ/مصالحت شرعی اصول سے متصادم نہ ہو۔

ثالث کے لیے بیت المال (حکومت وقت) یا عوام کی طرف سے کوئی وظیفہ یا تنخواہ مقرر نہ ہو۔

ثالث بنانے سے پہلےاس کی اجرت متعین کی گئی ہو،اور فیصلہ لکھ کر بھی دیتا ہو۔

لہذا صورت مسئولہ  میں اگر ثالث یا مصالح کو درجہ بالا شرائط کے ساتھ مصالحت کی اجرت ملی ہو،تو اس کے لیےیہ پیسے لینا جائز ہے، اور اہلیت نہ ہونے کی صورت میں ثالث بننا ہی جائز نہیں ہوگا چہ جائے کہ  اس پر اجرت لینااسی طرح اگر باقاعدہ  اجرت مقرر نہ ہو تو پھر فیصلہ کروانے والے فریقوں سے اجرت طلب کرنا جائز ہوگا، لیکن اس بات کا خیال رہے کہ ایک تو اجرت اپنے وقت اور عمل کے بقدر ہی وصول کرے، لوگوں کی ضرورت اور مجبوری  سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بہت زیادہ اجرت وصول نہ کرے، اور دوسرا اس بات کا خیال رکھے کہ یہ اجرت رشوت نہ بن جائے، مثلاً دونوں فریقوں سے برابر سرابر اجرت ہی وصول کرے، کسی سے کم اور کسی سے زیادہ وصول نہ کرے،اسی طرح فیصلہ کروانے والوں کو اجرتِ  مثل کے علاوہ مزید تکلفات مثلاً  ہدایا یا پرتکلف ضیافتوں پر مجبور نہ کرے، بلکہ اگر کوئی فریق خود سے بھی ہدیہ دینے کی کوشش کرے تو اس کا ہدیہ قبول نہ کرے۔

فیصلہ کرانے کے علاوہ عام بیٹھک میں اجرت لینا صحیح نہیں ہے۔

عمدۃ القاری شر ح صحیح البخاری میں ہے:

 "للعامل أن يأخذ من عرض المال الذي يعمل فيه قدر عمالته إذا لم يكن فوقه إمام يقطع له أجرة معلومة، وكل من يتولى عملاً من أعمال المسلمين يعطي له شيء من بيت المال؛ لأنه يحتاج إلى كفايته وكفاية عياله، لأنه إن لم يعط له شيء لايرضى أن يعمل شيئاً فتضيع أحوال المسلمين. وعن ذلك قال أصحابنا: ولا بأس برزق القاضي، وكان شريح، رضي الله تعالى عنه، يأخذ على القضاء. ذكره البخاري في: باب رزق الحكام والعاملين عليها، ثم القاضي إن كان فقيراً فالأفضل بل الواجب أخذ كفايته من بيت المال، وإن كان غنياً فالأفضل الامتناع، رفقاً ببيت المال. وقيل: الأخذ هو الأصح صيانةً للقضاء عن الهوان، لأنه إذا لم يأخذ لم يلتفت إلى أمور القضاء كما ينبغي لاعتماده على غناه، فإذا أخذ يلزمه حينئذ إقامة أمور القضاء."

(كتاب البيوع، باب كسب الرجل وعمله بيده، ج:١١، ص:١٨٦، ط: دار إحياء التراث العربي بيروت)

وفیہ ایضاً:

" باب رزق الحكام والعاملين عليهاأي: هذا باب فيه بيان رزق الحكام بضم الحاء وتشديد الكاف جمع حاكم والعاملين جمع عامل وهو الذي يتولى أمرا من أعمال المسلمين كالولاة وجباة الفيء وعمال الصدقات ونحوهم، وفي بعض النسخ: باب رزق الحاكم، وفي بعضها: باب رزق القاضي، والرزق ما يرتبه الإمام من بيت المال لمن يقوم بمصالح المسلمين. قوله: عليها، قال بعضهم: أي على الحكومات. قلت: الصواب أن يقال: على الصدقات، بقرينة ذكر الرزق والعاملين. وكان شريح القاضي يأخذ على القضاء أجرا. شريح هو ابن الحارث بن قيس النخعي الكوفي قاضي الكوفة، ولاه عمر، رضي الله تعالى عنه، ثم قضى من بعده بالكوفة دهراً طويلاً، ثقة مخضرم أدرك الجاهلية والإسلام، ويقال: إن له صحبة، مات قبل الثمانين وقد جاوز المائة. قوله: أجراً أي: أجرة، وفي التلويح: هذا التعليق ضعيف، وهو يرد على من قال: التعليق المجزوم به عند البخاري صحيح. قلت: رواه عبد الرزاق وسعيد بن منصور من طريق مجالد عن الشعبي بلفظ: كان مسروق لايأخذ على القضاء أجراً، وكان شريح يأخذ، وروى ابن أبي شيبة عن الفضل بن دكين عن الحسن بن صالح عن ابن أبي ليلى قال: بلغنا أو قال: بلغني أن علياً رضي الله تعالى عنه، رزق شريحاً خمسمائة. قلت: هذا يؤيد قول من قال: التعليق المذكور ضعيف، لأن القاضي إذا كان له شيء من بيت المال ليس له أن يأخذ شيئاً من الأجرة. وقال الطبري: ذهب الجمهور إلى جواز أخذ القاضي الأجرة على الحكم؛ لكونه يشغله الحكم عن القيام بمصالحه. غير أن طائفة من السلف كرهت ذلك ولم يحرموه مع ذلك، وقال أبو علي الكرابيسي: لا بأس للقاضي أن يأخذ الرزق على القضاء عند أهل العلم قاطبةً من الصحابة ومن بعدهم، وهو قول فقهاء الأمصار، ولا أعلم بينهم اختلافاً، وقد كره ذلك قوم منهم مسروق، ولا أعلم أحداً منهم حرمه. وقال صاحب الهداية: ثم إن القاضي إذا كان فقيراً فالأفضل بل الواجب أخذ كفايته، وإن كان غنياً فالأفضل الامتناع عن أخذ الرزق من بيت المال رفقاً ببيت المال. وقيل: الأخذ هو الأصح صيانةً للقضاء عن الهوان ونظراً لمن يولى بعده من المحتاجين ويأخذ بقدر الكفاية له ولعياله."

(كتاب الأحكام، باب رزق الحكام والعاملين عليها، ج:٢٤، ص:٢٤٢، ط:دار إحياء التراث العربي بيروت)

لسان الحكام میں ہے:

"قال جلال الدين أبو المحامد حامد بن محمد رحمه الله تعالى في كتاب السجلات يجوز للقاضي أخذ الأجرة على كتبه السجلات والمحاضر وغيرها من الوثائق بمقدار أجرة المثل وذلك لأن القاضي إنما يجب عليه القضاء وإيصال الحق إلى مستحقه فحسب أما الكتابة فزيادة عمل يعمله للمقضى له وعلى هذا قالوا لا بأس للمفتي أن يأخذ شيئا على كتابة جواب الفتوى وذلك لأن الواجب على المفتى الجواب باللسان دون الكتابة بالبنان ومع هذا الكف عن ذلك أولى احترازا من القيل والقال وصيانة لماء الوجه عن الابتذال."

(الفصل الأول في آداب القضاء وما يتعلق به، ص:٢١٩، ط:الحلبي القاهرة)

البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

" قال: - رحمه الله - (ورزق القاضي) يعني وحل رزق القاضي من بيت المال لأن بيت المال أعد لمصالح المسلمين ورزق القاضي منهم؛ لأنه حبس نفسه لنفع المسلمين «وفرض النبي  صلى الله عليه وسلم لعلي لما بعثه إلى اليمن»، وكذا الخلفاء من بعده هذا إذا كان بيت المال جمع من حل فإن جمع من حرام وباطل لم يحل؛ لأنه مال الغير يجب رده على أربابه ثم إذا كان القاضي محتاجاً فله أن يأخذ ليتوصل إلى إقامة حقوق المسلمين؛ لأنه لو اشتغل بالكسب لما تفرغ لذلك وإن كان غنياً فله أن يأخذ أيضاً وهو الأصح، لما ذكرنا من العلة ونظراً لمن يأتي بعده من المحتاجين ولأن رزق القاضي إذا قطع في زمان يقطع الولادة بعد ذلك لمن يتولى بعده هذا إذا أعطوه من غير شرط فلو أعطاه بالشرط كان معاقدة وإجارة لايحل أخذه لأن القضاء طاعة فلايجوز أخذ الأجر عليه كسائر الطاعات اهـ.ولك أن تقول: يجوز أخذ الأجرة عليه كما قالوا: الفتوى على جواز أخذ أجرة على تعليم القرآن وغيره كما تقدم في كتاب الإجارة، ولايقال: هذا مكرر مع قول المؤلف: وكفاية القضاة في باب الجزية؛ لأنا نقول: ذلك باعتبار ما يجوز للإمام دفعه، وهذا باعتبار ما يجوز للقاضي تناوله، فلا تكرار، قال الشارح: وتسميته رزقاً يدل على أنه يأخذ منه مقدار كفايته وعيلته، وليس له أن يأخذ أزيد من ذلك."

(كتاب الكراهية، فصل في البيوع، رزق القاضي من بيت المال، ج:٨، ص:٢٣٧، دار الكتاب الإسلامي)

نیل الاوطار للشوکانی میں ہے:

"قال ابن العربی، الصحیح جواز أخذ الأجرۃ علی  الأزان و الصلوۃ و القضاء وجمیع  الأعمال الدنية."

(کتاب  الصلوۃ، أبواب الأذان، باب النھي عن أخذ الأجرۃ علی الأذان، ج:٢، ص:٧٠، ط:دار الحديث مصر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144504100717

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں