بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

فیشن کی وجہ سے کپڑوں پر تصویریں بنانا/ ان کپڑوں میں نماز پڑھنے کا حکم


سوال

جیسے آج کل فیشن کا ماحول ہے اس لئے ایک عجیب فیشن چل رہا ہے مثال کے طور پر کپڑوں پہ جاندار کی تصویر بنوانا، مارخور کی تصویر بنوانا صرف اس کے سر کی اور پھر ان کپڑوں میں نماز پڑھنے کے حوالے سے کیاحکم ہوگا؟ رہنمائی فرمائیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں جاندار کی تصویر  سازی مطلقاً  حرام  ہے، چاہے وہ کپڑوں پر ہو یا اس کے علاوہ ہو، مختلف احادیث مبارکہ میں تصویر سازی پر سخت وعیدیں آئی ہیں،جیسا کہ مروی ہے:

"عن سعيد بن أبي الحسن، قال: جاء رجل إلى ابن عباس، فقال: إني رجل أصور هذه الصور، فأفتني فيها، فقال له: ادن مني، فدنا منه، ثم قال: ادن مني، فدنا حتى وضع يده على رأسه، قال: أنبئك بما سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «كل مصور في النار، يجعل له، بكل صورة صورها، نفسا فتعذبه في جهنم» وقال: «إن كنت لا بد فاعلا، فاصنع الشجر وما لا نفس له»، فأقر به نصر بن علي."

(صحیح مسلم، کتاب اللباس والزینة، باب لا تدخل الملائكة بيتا فيه كلب ولا صورة، رقم الحدیث:99، ج:3، ص:1670، ط:داراحیاء التراث العربی)

"ترجمہ: حضرت سعید فرماتے ہیں کہ ایک آدمی حضرت ابن عباس رضی اللّٰہ عنہ کے پاس آیا اور اس نے عرض کیا میں مصور ہوں اور تصویریں بناتا ہوں آپ اس بارے میں مجھے فتوی دیں، حضرت ابن عباس رضی اللّٰہ عنہ نے اس آدمی سے فرمایا میرے قریب ہوجا وہ آپ کے قریب ہوگیا یہاں تک کہ حضرت ابن عباس نے اپنا ہاتھ اس کے سر پر رکھ کر فرمایا میں تجھ سے وہ حدیث بیان کرتا ہوں جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنی ہے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:  کہ ہر  تصویر بنانے والا دوزخ میں جائے گا اور ہر ایک تصویر کے بدلہ میں ایک جاندار آدمی بنایا جائے گا جو اسے جہنم میں عذاب دے گا حضرت ابن عباس رضی اللّٰہ عنہ نے فرمایا اگر تجھے اس طرح کرنے پر مجبوری ہے (تو بے جان چیزوں) درخت وغیرہ کی تصویریں بنا۔"

لہذا  کسی بھی فیشن سے متاثر ہوکرغیرشرعی امور کا ارتکاب کرنایعنی کپڑوں پر جاندار کی تصویر بنانا جائز نہیں ہےورنہ قیامت کے دن عنداللہ مواخذہ ہوگا۔

 اگر مذکورہ کپڑوں  پر تصویر واضح ہے تو ان کپڑوں میں تصویر کی موجودگی میں نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہوگا جس کا لوٹانا ضروری ہے، البتہ اگر ان کپڑوں سے تصویر کو مٹادیا جائے، یعنی جس دھاگے سے یہ تصویر بنی ہوئی ہے، اس دھاگے کو نکال دیا جائے  تو تصویر خود ختم ہوجائے گی، یا یہ تصویر  چھپالی جائے، یا اس کا  سر مکمل کاٹ دیا جائے تو ان کپڑوں میں نماز پڑھنا درست ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"و ظاهر كلام النووي في شرح مسلم الإجماع على تحريم تصوير الحيوان، وقال: وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره، فصنعته حرام بكل حال لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى، وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم وإناء وحائط وغيرها."

( کتاب الصلوٰۃ، باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیھا، ج:1، ص:647، ط: ایچ ایم سعید)

فتاویٰ شامی (الدر المختار ورد المحتار) میں ہے:

"(ولبس ثوب فيه تماثيل) ذي روح،

(قوله ولبس ثوب فيه تماثيل) عدل عن قول غيره تصاوير لما في المغرب: الصورة عام في ذي الروح وغيره، والتمثال خاص بمثال ذي الروح ويأتي أن غير ذي الروح لا يكره قال القهستاني: وفيه إشعار بأنه لا تكره صورة الرأس، وفيه خلاف كما في اتخاذها كذا في المحيط، قال في البحر: وفي الخلاصة وتكره التصاوير على الثوب صلى فيه أو لا انتهى، وهذه الكراهة تحريمية. وظاهر كلام النووي في شرح مسلم الإجماع على تحريم تصوير الحيوان، وقال: وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره، فصنعته حرام بكل حال لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى، وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم وإناء وحائط وغيرها اهـ فينبغي أن يكون حراما لا مكروها إن ثبت الإجماع أو قطعية الدليل بتواتره اهـ كلام البحر ملخصا. وظاهر قوله فينبغي الاعتراض على الخلاصة في تسميته مكروها."

(کتاب الصلوۃ، باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها، ج:1، ص:647، ط:ایچ ایم سعید)

فتاویٰ شامی میں ہے:

" الأمر بالإعادة لإزالة الكراهة لأنه الحكم في كل صلاة أديت مع الكراهة وليس للفساد. اهـ. والظاهر أنها كراهة تحريم".

(کتاب الصلوۃ، باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها، ج:1، ص:644، ط:ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144505100461

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں