بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

4 ذو القعدة 1445ھ 13 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

فیس بک کو غلط طریقے سے استعمال کرنے کا حکم


سوال

ایک شادی شدہ خاتون کا فیس بک پر کسی کی فیک آئی ڈی بنا کر کسی اجنبی مرد سے محبت جتائی ہو اور سامنے والا انسان بھی اس کے ساتھ محبت میں مبتلا ہو جائے، پھر خاتون کو احساس ندامت ہو،  اور توبہ کر لی، تو کیا اس مرد کو بتا کر معافی مانگنا ضروری ہے یا صرف کنارہ کشی کر لینا کافی ہے، دل سے بہت بار اللہ پاک سے رو رو کر دعا مانگی اور توبہ کرتی ہو، لیکن دل سے یہ احساس ندامت نہیں جاتا، کہ روز قیامت کہیں اللہ پاک اسکے اپنےسامنے نا کھڑا کریں، حقوق العباد کا ڈر آتا ہے، ہر وقت جبکہ پانچ وقت نماز اور تہجد بھی پڑھتی ہوں، اسکی بخشش کی بھی ہر وقت دعا کرتی ہوں ، بظاہر کوئی نقصان نہیں پہنچایا،  لیکن جھوٹ اور دھوکے کا احساس ہر وقت گھیر کے رکھتا ہے، جانتی ہوں اللہ بہت معاف کرنے والا ہے، لیکن کیا اس شخص کواپنا گناہ اپنا جھوٹ بتانا ضروری ہے ؟ جب کہ رب نے بھی پردہ رکھا ہو تو پھر بھی کیا بتا کر معافی مانگنا ضروری ہے، یا خاموشی اختیار کر کے اپنے رب سے سچی توبہ کے بعد پرسکون ہو جانا چاہئے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ خاتون کا فیس بک پر کسی اجنبی مرد سے معاشقہ کرنا، شادی شدہ ہونے کے باوجود غیرمرد کو اپنی طرف متوجہ کرنا سخت گناہ تھا، جس پر سائلہ کو صدق دل سے آئندہ گناہ نہ کرنے کےعزمِ مصمّم کے ساتھ تنہائی میں کسی کو بتائے بغیر توبہ واستغفار  کرنا چاہیے، اور اللہ ہی سے معافی مانگی چاہیے، گناہ کا اظہار کرنا شرعاً جائز نہیں ہے۔  امید ہے اللہ تعالیٰ معاف فرمائیں گے، نیز سائلہ نے اگرچہ جعلی آئی ڈی بناکر خود بھی گناہ کیا اور اجنبی مرد کو اپنی طرف متوجہ کرکے اس کو بھی گناہ میں مبتلا کرلیا، تو سائلہ کو اپنی گناہ پر معافی مانگنے کے بعد اجنبی مرد سے معافی مانگنے کی ضرورت نہیں ہے، تاکہ مزید بات آگے نہ بڑے، نیز آئندہ فیس بک کے استعمال سے بالکلیہ اجتناب کرے۔ اللہ تعالیٰ نے پردہ رکھا ہے، تو اللہ سے معافی مانگنے کے بعد پانچ وقتہ نماز کے اہتمام کے ساتھ اور آئندہ کسی بھی گناہ سے بچتے ہوئے اپنے شوہر اور بچوں کی طرف مکمل توجہ کے ساتھ زندگی گزارے، تو اللہ تعالیٰ معاون ومددگار بھی ہوں گے، حدیث شریف میں ایسی عورتوں کو اچھی خواتین میں سے شمار کیا گیا ہے، جیسے کہ مروی ہے:

 " عن أبي هريرة، قال: قيل لرسول الله صلى الله عليه وسلم: أي النساء خير؟ قال: «التي تسره إذا نظر، وتطيعه إذا أمر، و لاتخالفه في نفسها ومالها بما يكره»"

(سنن النسائی، باب کراهية تزویج الزناۃ، رقم الحدیث:3231، ج:6، ص:68، ط:مکتب المطبوعات الاسلامیۃ)

ترجمہ:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کہ عورتوں میں سے کونسی عورت بہتر ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ عورت کہ جب اسے اس کا خاوند دیکھے تو وہ اسے خوش کردے اور جب وہ اسے حکم دے تو یہ اس کی اطاعت کرے اور اپنی جان اور مال کے بارے میں کوئی ایسا اقدام نہ کرے، جو اس کے خاوند کو ناگوار ہو۔

 اور خاوند کی نافرمانی اور حکم عدولی کرنے والی عورتوں کے بارے میں سخت وعیدوں کا ذکر ہے جیسے کہ حدیث شریف میں ہے:

"عن ابن عباس، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: «أريت النار فإذا أكثر أهلها النساء، يكفرن» قيل: أيكفرن بالله؟ قال: " يكفرن العشير، ويكفرن الإحسان، لو أحسنت إلى إحداهن الدهر، ثم رأت منك شيئا، قالت: ما رأيت منك خيرا قط". 

(صحیح البخاری، باب کفران العشیر،رقم الحدیث:29، ج:1، ص:15، ط:دارطوق النجاۃ)

ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں :میں نے جہنم کو دیکھا تو میں نے آج جیسا منظر کبھی نہیں دیکھا اور میں نے اس (جہنم) میں عورتوں کو مردوں کی نسبت زیادہ پایا۔ لوگوں نے پوچھا اے اللہ کے رسول ﷺ وہ کیوں؟ تو آپ ﷺ نے بتایا کہ ان کے کفر کی وجہ سے، کہا گیا کہ کیا وہ اللہ کا کفر کرتی ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا:وہ خاوند کی نافرمانی کرتی ہیں اور احسان فراموشی کرتی ہیں، اگر آپ ان میں سے کسی کے ساتھ زمانہ بھر احسان کریں , پھر وہ آپ میں کوئی ناگوار بات دیکھ لیں تو کہتی ہے میں نے تجھ میں کبھی خیر نہیں دیکھی۔

روح المعاني فی تفسیر القرآن العظیم والسبع المثانی میں ہے:

"يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَصُوحًا عَسَى رَبُّكُمْ أَنْ يُكَفِّرَ عَنْكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَيُدْخِلَكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ...

أخرجه ابن مردويه عن ابن عباس قال: «قال معاذ بن جبل: يا رسول الله ما التوبة النصوح؟ قال: أن يندم العبد على الذنب الذي أصاب فيعتذر إلى الله تعالى ثم لا يعود إليه كما لا يعود اللبن إلى الضرع»...

وقال الإمام النووي: التوبة ما استجمعت ثلاثة أمور: أن يقلع عن المعصية وأن يندم على فعلها وأن يعزم عزما جازما على أن لا يعود إلى مثلها أبدا فإن كانت تتعلق بآدمي لزم رد الظلامة إلى صاحبها أو وارثه أو تحصيل البراءة منه، و ركنها الأعظم الندم.

و في شرح المقاصد قالوا: إن كانت المعصية في خالص حق الله تعالى فقد يكفي الندم كما في ارتكاب الفرار من الزحف وترك الأمر بالمعروف، وقد تفتقر إلى أمر زائد كتسليم النفس للحد في الشرب وتسليم ما وجب في ترك الزكاة، ومثله في ترك الصلاة وإن تعلقت بحقوق العباد لزم مع الندم، والعزم إيصال حق العبد أو بدله إليه إن كان الذنب ظلما كما في الغصب والقتل العمد، ولزم إرشاده إن كان الذنب إضلالا له، والاعتذار إليه إن كان إيذاء كما في الغيبة إذا بلغته و لايلزم تفصيل ما اغتابه به إلا إذا بلغه على وجه أفحش." 

(سورة التحريم، رقم الآية:08، ج:14، ص:352، ط:داراحىاء التراث العربى)

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144307100569

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں