بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فیروزہ پتھر کے بارے میں دو فتاوی میں ظاہری تضاد


سوال

فیروزہ پتھر کے بارے میں کیے گئے سوال، جس میں اس بات کا سوال کیا گیا ہے کہ  فیروز ہ پتھر کی وجہ تسمیہ کیا ہے؟ اور یہ پتھر فیروز لؤلؤ (قاتلِ عمر رضی اللہ عنہ)  کی طرف منسوب ہے، کیا یہ بات درست ہے؟ تو اس سوال  کا آپ کے دار الافتاء سے یہ  جواب دیا گیا  ہے:

"فیروزہ پتھر" کے متعلق یہ بات محض سنی سنائی ہے کہ یہ فیروز لولو کی جانب منسوب ہے، تحقیق سے معلوم ہوا کہ یہ پتھر ہندوستان وایران سمیت خطہ ارضی کے کئی علاقوں میں پایا جاتا ہے، اور اسی نام سے موسوم کیا جاتا ہے، لہذا دیگر پتھروں کی طرح اس پتھر کی انگوٹھی بھی پہننا جائز ہے، البتہ یہ عقیدہ رکھنا قطعا درست نہیں کہ کسی قسم کے جانی یا مالی نفع ونقصان میں کوئی پتھر مؤثر ہوتا ہے، اللہ تعالی کے حکم کے بغیر کوئی بھی پتھر اپنے اندر کوئی تاثیر نہیں رکھتا. اگر پتھر میں تاثیر کا عقیدہ نہ ہو تو مردوں کو ساڑھے چار ماشہ چاندی کی انگوٹھی پہننے کی اجازت ہے جس کا نگینہ کسی بھی پتھر کا ہوسکتا ہے۔واللہ أعلم بالصواب."

جب کہ ہمارے اکابرین علمائے دیوبند جنہوں نے رد شیعہ پر تحقیقی کام کیا ہے آپ کا جواب ان کے برعکس ہے، اس کے متعلق شہید اسلام حضرت یوسف لدھیانوی شہیدؒ نے بھی آپ کے مسائل اور ان کے حل میں بھی لکھا ہے۔ درج ذیل حوالہ سے تحقیق کی جا سکتی ہے۔ آپ کے مسائل اور ان کا حل: جلد دوم صفحہ (553)) اب آپ سے رہنمائی کی درخواست ہے کہ دونوں فتاویٰ میں سے کس کو درست مانا جائے، آیا اکابرین کے فتاویٰ کو رد کیا جائے یا آپ سے مزید تحقیق و درست رہنمائی کی درخواست کی جائے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کو  مغالطہ ہوا ہے، جس کی بناء پر سائل  کو دونوں فتاوی  بظاہر تضاد نظر آرہا ہے، سائل نے جامعہ کے جس فتویٰ کا ذکر کیا ہے، اس میں فیروزہ پتھر کی اصل اور وجہ تسمیہ کا ذکر کیا گیا ہے، اور اس کی اصل فیروز لؤلؤ کی طرف ہونے کی نفی کی گئی ہے، جب کہ حضرت مولانا یوسف لدھیانوی شہید رحمہ اللہ کی تحریر میں اس بات کا کہیں ذکر نہیں ہے کہ اس پتھر کی اصل وجہ تسمیہ فیروز لؤلؤ کی وجہ سے ہے، اس تحریر میں صرف اس بات کا ذکر ہے کہ سبائیوں نے فیروز کے نام کو عام کرنے کے لیے فیروزہ پتھر کا سہارا لیا اور اس کی وجہ سے اس کو متبرک  پتھر ہونے کی حیثیت سے پیش کیا۔ لہٰذا دونوں فتاوی اور تحریرات میں کوئی تضاد نہیں ہے۔

حضرت کی تحریر مندرجہ ذیل ہے:

"فیروزه پھر حضرت عمر کے قاتل فیروز کے نام پر ہے"

سوال: لعل، یاقوت، زمرد، عقیق اور سب سے بڑھ کر فیروزہ کے نگ کو انگوٹھی میں پہنے سے کیا حالات میں تبد یلی رونما  ہوتی ہے؟ اور اس کا پہنا اور اس پر یقین رکھنا جائز ہے؟

جواب ... پتھروں کوکامیابی و ناکامی میں کوئی دخل نہیں،  حضرت عمر رضی اللہ عنہ  کے  قاتل کا نام فیروز تھا، اس کے نام کو عام کرنے کے لیے سبائیوں نے فیروزہ کو متبرک پتھر کی حیثیت سے پیش کیا،  پتھروں کے بارے میں نحس وسعد کا تصور سبائی افکار کا شاخسانہ ہے۔"

(ج: 2، ص:553، ط:مکتبہ لدھیانوی)

اردو دائرہ معارف اسلامیہ میں ہے:

"اکفانی کہتا ہے کہ اس پتھر کا نام فیروزه اس لیے هوا که یه افتح مندی کا پتھر ہے، چنانچه اسی لیے اسے حجر الغلبه بھی کہتے  ہیں، قرون وسطی کے لاطینی ترجموں میں لفظِ فيروزج کی کئی مسخ شدہ شکلیں ملتی ہیں (مثلا  peruzegi, febrognug, farasquin وغيره)، لیکن ان میں سے کسی ایک کو بھی لفظ turquoise کا ماخذ قرار نہیں دیا جاسکتا،  کیونکه الفاظ Turquesin turcoys اور turquesia تیرھویں صدی ہی سے شروع هو جاتے ہیں، لهذا هم یہ  فرض کرنے میں حق . بجانب هیں که فیروزے کا یہ نام اس کے اصل مخرج کی بنا پر هوا، جو ترکوں کا قدیم وطن ہے، دیکھیے آرنولڈس ساکسو Arnoldus Saxo :"Turcoys...dictus a regione Turkya in qua nascitur" (فیروزے کا نام ترکستان کے علاقے پر ہے جہاں وہ پیدا ہوتا ہے)۔ یہ امر یقینی ہے کہ اس نام کا رواج پہلے پہل وینس اور  ترکی کے درمیان تجارت کے سلسلے میں نہیں ہوا تھا۔"

(اردو دائرہ معارف اسلامیہ، ج:15، ص:1077،  شعبہ اردو دارئرہ معارف اسلامیہ، پنجاب یونیورسٹی، لاہور)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403100355

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں