بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فقہی شرائط کی موجودگی میں قسط وار گاڑی خریدنے کا حکم


سوال

ایک شخص دوسرے سے  قسطوں پر  گاڑی خریدتے ہیں ،   گاڑی کی اصل قیمت نقد میں 15 لاکھ تھی ، اور ادھار  انہوں نے اس طرح کیا کہ 19 لاکھ  میں گاڑی دوں گا، اور   دونوں کا بھاؤ  تاؤ  ادھار انیس لاکھ میں اس طرح     طے   ہوا کہ ان میں سے کچھ رقم نقد دے دی،  اور کچھ کے بارے میں اس طرح طے کیا کہ   دو سال میں  قسط وار ادا کرتا رہوں گا ، ہر مہینہ 50  ہزار روپے دوں گا ، اور اس میں یہ بھی طے ہوا کہ اگر خدانخواستہ کبھی قسط کے  ادا کرنے میں تاخیر ہو گئی تو اس کی وجہ سے کوئی زیادتی یا جرمانہ نہیں ہوگا،  اور اسی طرح اگر مشتری  از خود کچھ جلدی  ادا کرے   تو اس وجہ سے  ڈسکاؤنٹ نہیں ملے گا ، اور دونوں نے ان شرائط پر اتفاق کرلیا، تو کیا اس طرح معاملہ کرنا یعنی اس طرح  قسطوں پر گاڑی خرید نا جائز ہے یا نہیں ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں گاڑی اس طرح قسطوار خریدنا کہ ابتداءً کل    قیمت 19 لاکھ متعین  کردی، اور اس میں کچھ نقد ادا کردیے، اور باقی کے متعلق اس طرح طے ہوا کہ دو سال کے مدت میں ہر مہینہ  پچاس ہزار قسط ادا کرتا رہوں گا، اور قسط کی تاخیر اور تقدیم پر کوئی زیادتی یا ڈسکاؤنٹ بھی نہیں ہے، تو اس طرح قسط وار  گاڑی خریدنا  جائز ہے۔

شرح المجلۃ لسلیم رستم باز میں ہے :

"‌البيع ‌مع ‌تأجيل ‌الثمن وتقسيطه صحيح يلزم أن تكون المدة معلومة في البيع بالتأجيل والتقسيط."

(الكتاب الأول البيوع، الفصل الثانی  في بيان المسائل  المتعلقة بالنسيئة و التأجيل، المادة: 245،246،ج:1، ص:100،  ط:رشيدية)

وفیہ ایضاً:

"تأجيل الثمن  إلى مدة غير معينة كإمطار السماء يفسد البيع."

(الكتاب الأول البيوع، الفصل الثانی  في بيان المسائل  المتعلقة بالنسيئة و التأجيل، المادة: 248،ج:1، ص:101،  ط:رشيدية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإذا كان عليه ألف درهم نجية مؤجلة فصالحه على ألف سود حالة فإنه لا يجوز كذا في الذخيرة.‌لو ‌كانت ‌له ‌ألف مؤجلة فصالحه على خمسمائة حالة لا يجوز كذا في الهداية."

(كتاب الصلح، الباب الثاني في الصلح في الدين، ج:4، ص:232، ط:دارالفكر)

فقہ البیوع علی المذاھب الاربعہ میں ہے:

"وكما يجوز ضرب الأجل لأداء الثمن دفعة واحدة، كذلك يجوز أن يكون أداء الثمن بأقساط، بشرط أن تكون آجال الأقساط و مبالغها معينة عند العقد، و قد يسمى: البيع بالتقسيط، و هو نوع من البيع المؤجل، و الأقساط قد تسمى نجوما."

(الباب الخامس من حيث طريق وفاء العوضين، ج:1، ص:525، ط:مكتبة  معارف القرآن)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144508100828

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں