بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

یونیورسٹی کی فیس کے لیے زکوٰۃ کی رقم دینا


سوال

ایک درمیانے درجے کے خاندان کا لڑکا ہے، کھانا پینا اور گھر کے اخراجات مشکل سے پورے ہو رہے ہیں،  یونیورسٹی میں تعلیم  فیس کے لیے پیسے نہیں ہیں، کیا کوئی آدمی اپنی زکوٰۃ کی رقم سے اس طالب علم کی فیس ادا کرسکتا ہے؟

جواب

زکاۃ کسی مسلمان مستحقِ زکاۃ شخص کو بغیر عوض کے مالک بناکردینے سے ادا ہوتی ہے، لہذا اسکول یا یونیورسٹی کی فیس میں زکاۃ کی رقم دینے سے زکاۃ ادا نہیں ہوگی، البتہ اگر مذکورہ شخص  زکوٰۃ کا مستحق ہےیعنی اس کی ملکیت میں اس کی ضرورتِ  اصلیہ سے زائد   ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر  رقم نہیں ہے ، اور نہ ہی  اس  قدر ضرورت و استعمال سے زائد  سامان ہو کہ جس کی مالیت نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت) کے برابر بنتی ہے اور نہ  ہی  وہ سید  ، ہاشمی ہے تو اس کے لیے زکاۃ  لینا جائز ہے، لہذا اس کو مالک بناکر زکوٰۃ  کی رقم دے دی جائے؛ تاکہ وہ اس سے اپنی فیس ادا کردے تو اس سے زکوٰۃ ادا ہوجائے گی۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 256):

"و شرعًا (تمليك) خرج الإباحة، فلو أطعم يتيما ناويا الزكاة لا يجزيه إلا إذا دفع إليه المطعوم كما لو كساه بشرط أن يعقل القبض إلا إذا حكم عليه بنفقتهم (جزء مال) خرج المنفعة، فلو أسكن فقيرا داره سنة ناويا لا يجزيه (عينه الشارع) وهو ربع عشر نصاب حولي.

(قوله: فلو أسكن إلخ) عزاه في البحر إلى الكشف الكبير وقال قبله والمال كما صرح به أهل الأصول ما يتمول ويدخر للحاجة، وهو خاص بالأعيان فخرج به تمليك المنافع. اهـ. "

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144201200369

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں