کیا روزے کا فدیہ عیدی یا تحفے کے طور پر دیا جا سکتا ہے؟
واضح رہے کہ زکات، فدیہ اور کفارہ — یہ تینوں مالی عبادات ہیں، اور ان کا مصرف ایک ہی ہے: یعنی مستحق اور ضرورت مند افراد۔اگر ان میں سے کسی ایک کی رقم، جیسے زکات یا فدیہ، کسی کو عیدی یا تحفہ (ہدیہ) کہہ کر دی جائے اور دیتے وقت دل میں زکات یا فدیے کی نیت موجود ہو، تو یہ ادائیگی شرعاً درست شمار ہوگی۔
لیکن اگر نیت ہی نہ ہو — یعنی محض تحفہ یا خوشی کی رقم سمجھ کر دی جائے، اور زکات یا فدیے کی نیت نہ کی جائے — تو ایسی صورت میں وہ رقم دینے کے بعد زکات یا فدیہ میں شمار نہیں ہوگی، اور اس فریضے کی دوبارہ ادائیگی لازم ہوگی۔
بدائع الصنایع میں ہے:
"نوى الزكاة بما يدفع لصبيان أقربائه أو لمن يأتيه بالبشارة أو يأتي بالباكورة أجزأه، ولو نوى الزكاة بما يدفع المعلم إلى الخليفة، ولم يستأجره إن كان الخليفة بحال لو لم يدفعه يعلم الصبيان أيضا أجزأه، وإلا فلا، وكذا ما يدفعه إلى الخدم من الرجال والنساء في الأعياد وغيرها بنية الزكاة كذا في معراج الدراية"
(کتاب الزکات،الباب السابع فی المصرف،فصل ما یوضع فی بیت المال من الزکاۃ،ج:1،ص:190،ط:دار الفكر بيروت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144609102419
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن