کیا ایک فیکٹری مالک اپنے مزدور کو زکات دے سکتا ہے؟
صورتِ مسئولہ میں اگر فیکٹری میں کام کرنے والے مزدور زکات کے مستحق ہیں (یعنی ان کی ملکیت میں ضرورتِ اصلیہ سے زائد نصاب (یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی) کے برابر رقم نہیں ہے، اور نہ ہی اس قدر ضرورت و استعمال سے زائد سامان ہے کہ جس کی مالیت نصاب کے برابر بنتی ہے اور نہ ہی وہ ہاشمی (سید/عباسی وغیرہ) ہے) تو مالک کے لیے ان کی تنخواہ کے علاوہ رقم سے ان کو زکات دینا جائز ہے۔
اگر مزدور زکات کے مستحق نہ ہوں تو ان کو زکات دینا جائز نہیں ہے، اسی طرح زکات کی رقم کو ان تنخواہ میں شمار کرنا بھی جائز نہیں ہے اس سے زکات ادا نہیں ہوگی، اس لیے کہ زکات مسلمان مستحق شخص کو بغیر عوض کے مالک بناکر دینا ضروری ہوتا ہے اور تنخواہ محنت کا عوض ہوتی ہے۔
الفتاوى الهندية (1/ 190):
"ولو نوى الزكاة بما يدفع المعلم إلى الخليفة، ولم يستأجره إن كان الخليفة بحال لو لم يدفعه يعلم الصبيان أيضا أجزأه، وإلا فلا". فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144110201340
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن