بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 رمضان 1446ھ 28 مارچ 2025 ء

دارالافتاء

 

فیصل بینک کے اسلامی نور کریڈٹ کارڈ کا حکم


سوال

فیصل بینک اسلامی نور کریڈٹ کارڈ استعمال کرنا جائز ہے ؟

جواب

 کریڈٹ کارڈ(Credit Card)کا استعمال اور اس کے ذریعہ  خرید وفروخت ناجائز ہے؛کیوں کہ  کریڈٹ کارڈ کے حصول کے لیے بینک سے  ابتداءً جو   معاہدہ ہوتا ہے، اس میں  یہ بھی طے کرنا پڑتا ہے کہ  اگر مقررہ مدت کے اندر کارڈ ہولڈر نے رقم کی ادائیگی نہ کی تو وہ مقررہ اضافی رقم (سود) ادا کرے گا، لہذا  جس طرح سود کا لین دین شرعاً حرام ہے، اسی طرح سودی لین دین کا معاہدہ کرنا بھی حرام ہے، لہٰذا کریڈٹ کارڈ کا حاصل کرنا اصولی طور پر جائز نہیں ہے، چاہے بعد میں سود دینے کی نوبت آئے یا نہ آئے، یعنی اگر  مقررہ مدت میں واپس بھی کردے تو معاہدہ کے سودی ہونے کی وجہ سے اصولی طور پر کریڈٹ کارڈ کا استعمال نا جائز ہے،  اور اگر مقررہ مدت کے بعد سود کے ساتھ رقم واپس کرتا ہے تو اس کے ناجائز ہونے میں کسی قسم کا شبہ نہیں ہے، اس لیے  نفسِ معاہدہ کے سودی ہونے کی وجہ سے کریڈٹ کارڈ بنوانا ہی ناجائز ہے۔

نیز موجودہ زمانے میں اسلامی بینکنگ کے نام سے جتنے بھی بینک کام کر رہے ہیں،  وہ  اسلامی نہیں ہیں،لہذا  جیسے عام بینکوں کے کریڈٹ کارڈ کا استعمال جائز نہیں ہے، ایسے ہی اسلامی بینکوں کے کریڈٹ کارڈ کا استعمال بھی جائز نہیں ہے، چناں چہ فیصل بینک کے "اسلامک نور " کریڈٹ کارڈ کا استعمال بھی ممنوع ہے۔ 

حدیث شریف میں ہے:

"عن جابر ؓ قال: لعن رسول اللّٰہ  آکلَ الربوا ومؤکله وکاتبه وشاہدیه وقال: هم سواء."

(الصحیح لمسلم، کتاب المساقاة، باب آکل الربوا ومؤکله، ج:3، ص:1219، دار إحیاء التراث العربي، بیروت) 

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما الذي يرجع إلى نفس القرض: فهو أن لا يكون فيه جر منفعة، فإن كان لم يجز، نحو ما إذا أقرضه دراهم غلة، على أن يرد عليه صحاحا، أو أقرضه وشرط شرطا له فيه منفعة؛ لما روي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه «نهى عن قرض جر نفعا» ؛ ولأن الزيادة المشروطة تشبه الربا؛ لأنها فضل لا يقابله عوض، والتحرز عن حقيقة الربا، وعن شبهة الربا واجب."

(کتاب القرض، فصل في شرائط رکن القرض:ج:7، ص:395، ط:دار الکتب العلمیة، بیروت)     

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الأشباه: كلّ قرض جرّ نفعًا حرام، فكره للمرتهن سكنى المرهونة بإذن الراهن...(قوله: كلّ قرض جر نفعًا حرام) أي إذا كان مشروطًا كما علم مما نقله عن البحر...ثم رأيت في جواهر الفتاوى إذا كان مشروطًا صار قرضًا فيه منفعة وهو ربا وإلا فلا بأس به اهـ ما في المنح ملخصًا وتعقبه الحموي بأن ما كان ربًا لايظهر فيه فرق بين الديانة والقضاء على أنه لا حاجة إلى التوفيق بعد الفتوى على ما تقدم أي من أنه يباح."

(مطلب كلّ قرض جر نفعًا حرام، ج:5،ص:166،ط:سعید)

الأشباہ والنظائر میں ہے:

"ماحرم فعله حرم طلبه".

(القاعدة الرابعة عشر،ج:1، ص:348، ط:مکتبه علمیه)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144601100323

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں