ویب سائٹ ، نیٹ، فیس بک جیسے ذرائع ابلاغ پر کچھ اداروں کے فتاویٰ نظر سے گذرتے ہیں، کیا وہ فتاویٰ اور جوابات کسی کو ارسال کر سکتے ہیں؟ اگر ارسال کی اجازت ہو تو کچھ حدود وقوانین ہوں گے یا نہیں؟ اس بابت کچھ آداب ہو تو اس سے بھی آگاہ فرمائیں ۔
فتاویٰ اور جوابات کو اچھی نیت سے ارسال کرنا نیک عمل ہے۔ البتہ فتوی کو ہمیشہ اس کے ساتھ لکھے ہوئے سوال سمیت ہی شائع اور ارسال کرنا چاہیئے، اسلئے کہ وہ خاص سوال کا جواب ہوتا ہے۔ صرف جواب پڑھنے کی صورت میں غلط فہمی کا امکان رہتا ہے۔ نیز اس سوال و جواب میں کسی قسم کی تبدیلی کرنا بھی خیانت اور ناجائز ہے اور اولین شرط یہ ہے کہ جس ادارہ کا فتویٰ ہو وہ ادارہ مستند ہو۔
حدیث پاک میں ہے:
"عن عبد الرحمن بن ابي بكرة، عن ابيه، ذكر النبي صلى الله عليه وسلم قعد على بعيره وامسك إنسان بخطامه او بزمامه، قال: اي يوم هذا؟ فسكتنا حتى ظننا انه سيسميه سوى اسمه، قال: اليس يوم النحر؟ قلنا: بلى، قال: فاي شهر هذا؟ فسكتنا حتى ظننا انه سيسميه بغير اسمه، فقال: اليس بذي الحجة؟ قلنا: بلى، قال: فإن دماءكم واموالكم واعراضكم بينكم حرام، كحرمة يومكم هذا في شهركم هذا في بلدكم هذا، ليبلغ الشاهد الغائب، فإن الشاهد عسى ان يبلغ من هو اوعى له منه".
(بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «رُبَّ مُبَلَّغٍ أَوْعَى مِنْ سَامِعٍ»حدیث ۶۷،صحیح بخاری)
ترجمہ:" عبدالرحمٰن بن ابی بکرہ نےنقل کیا، کہ وہ (ایک دفعہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ کرتے ہوئے کہنے لگے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اونٹ پر بیٹھے ہوئے تھے اور ایک شخص نے اس کی نکیل تھام رکھی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا آج یہ کون سا دن ہے؟ ہم خاموش رہے، حتیٰ کہ ہم سمجھے کہ آج کے دن کا آپ کوئی دوسرا نام اس کے نام کے علاوہ تجویز فرمائیں گے (پھر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کیا آج قربانی کا دن نہیں ہے؟ ہم نے عرض کیا، بیشک۔ (اس کے بعد) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، یہ کون سا مہینہ ہے؟ ہم (اس پر بھی) خاموش رہے اور یہ (ہی) سمجھے کہ اس مہینے کا (بھی) آپ اس کے نام کے علاوہ کوئی دوسرا نام تجویز فرمائیں گے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کیا یہ ذی الحجہ کا مہینہ نہیں ہے؟ ہم نے عرض کیا، بیشک۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تو یقیناً تمہاری جانیں اور تمہارے مال اور تمہاری آبرو تمہارے درمیان اسی طرح حرام ہیں جس طرح آج کے دن کی حرمت تمہارے اس مہینے اور اس شہر میں ہے۔ پس جو شخص حاضر ہے اسے چاہیے کہ غائب کو یہ (بات) پہنچا دے، کیونکہ ایسا ممکن ہے کہ جو شخص یہاں موجود ہے وہ ایسے شخص کو یہ خبر پہنچائے، جو اس سے زیادہ (حدیث کا) یاد رکھنے والا ہو۔"
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144312100734
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن