بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فتویٰ نمبر 144211200103 کے سوال کی وضاحت کے بعد جواب


سوال

میں یہ سوال پہلے بھی کر چکا ہوں مگر شاید صحیح نہ بتا سکا تھا ۔ اس سوال میں جو گھر ہے وہ اس شخص کی ذاتی ملکیت ہے جو کہ اس نے اپنی ذاتی کمائی ہوئی رقم سے خریدا تھا ، والد کی طرف سے وراثت میں نہیں ملا۔ یہ شخص شادی شدہ ہے اور اپنے گھر میں بیوی اورنابالغ بیٹی کے ساتھ رہتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کے دو چھوٹے بھائی بھی ہیں جو صاحبِ اولاد ہیں اور والدہ بھی حیات ہیں ۔بھائیوں کو اس شخص نے اسٹامپ پیپر پر لکھ کر دے دیا ہے کہ اس کی جائیداد جس میں ایک گھر ہے جس کی مالیت تقریبًا ایک کڑور چالیس لاکھ ہے اس سے اس کے بھائیوں کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اگر خدانخواستہ اس شخص کا انتقال ہو جاۓ تو اس کی جائیداد کی تقسیم کس طرح ہوگی؟ اور اس کے بھائی شرعی طور پر اس کی بیوی اور بچی کو ڈرا دھمکا کر ان کی جائیداد میں حصہ تو طلب نہیں کر سکیں گے؟

جواب

محترم! آپ کا سوال پہلے بھی صحیح طرح سے سمجھ کر ہی جواب دیا گیا تھا، پہلے بھی یہی فرض کر کے کے جواب دیا گیا تھا کہ جس گھر کے بارے میں سوال ہورہا ہے وہ اس شخص کا ذاتی گھر ہے، لیکن چوں کہ مذکورہ شخص کے والد اور بیٹا نہ ہونے کی وجہ سے اس کے دونوں بھائی بھی والدہ، بیوہ  اور بیٹی کے ساتھ  وارث بنیں گے؛ اس لیے اس جواب میں بھی یہی لکھا گیا تھا کہ  :

’’ اگر مذکورہ شخص کے والد حیات نہیں ہیں، اور اس کی وفات کے وقت اس کا کوئی بیٹا بھی موجود نہ ہوا (یعنی کوئی بیٹا پیدا ہی نہ ہوا، یا پیدا ہو کر زندہ نہ رہا)، اور ان کے دونوں یا کوئی ایک بھائی زندہ ہوئے تو وہ بھائی بھی اس کے وارث بنیں گے، مذکورہ شخص کے یہ کہنے یا لکھنے ’’کہ اس کی جائے داد میں اس کے بھائیوں کا کوئی حصہ نہیں ہے‘‘ سے اس کے بھائی اس کی میراث سے محروم نہیں ہوں گے، کیوں کہ کسی کو وارث بنانا یا وراثت سے محروم کرنا یہ انسان کے بس کی بات نہیں ہے، وراثت کا حق اللہ تعالیٰ کی طرف سے طے کردہ ہے، لہٰذا اس شخص کے دیگر  ورثاء (بیوی، بیٹی اور والدہ) کو ان کا شرعی حصہ دینے  کے بعد جتنا بچے گا وہ اس کے بھائیوں میں اس شخص کے وارث ہونے کی حیثیت سے برابر برابر تقسیم ہوگا، لیکن چوں کہ ابھی مذکورہ شخص زندہ ہے؛ اس لیے ابھی ورثاء کے حتمی حصے بتائے نہیں جاسکتے ہیں، کیوں کہ یہ پتا نہیں کہ اس شخص کے انتقال کے وقت اس کے موجودہ ورثاء میں سے کون کون زندہ ہوگا، اس  لیے حتمی تقسیم اس کے انتقال کے وقت ہی بتائی جاسکتی ہے۔‘‘ 

شاید سائل کا خیال یہ ہے کہ کسی  شخص کی موت کے بعد اس کی ذاتی ملکیت میں صرف اس کی اولاد اور بیوہ کو ہی وراثت کا حق حاصل ہے،  بہن بھائیوں کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے، جب کہ حقیقت یہ نہیں ہے، بلکہ جیسے موروثی جائے داد میں بہن بھائیوں کا حصہ ہوتاہے، اسی طرح اگر کسی شخص کی اولاد میں بیٹا نہ ہو، اور اس کے والد بھی حیات نہ  ہوں تو اس کی ذاتی مملوکہ جائے داد میں بھی بھائی کو وراثت کا حق حاصل ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211200469

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں