بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کھانا، پھل اور پانی سامنے رکھ کر فاتحہ پڑھنا


سوال

بعض لوگ  کھانا ، پھل اور  پانی سامنے رکھ کر فاتحہ کرتے  ہیں،  کیا یہ عمل صحابہ کرام سے ثابت ہے؟

جواب

فاتحہ خوانی  کا شریعت  میں کوئی خاص طریقہ  مقرر  نہیں ہے، جو شخص جس وقت جس دن چاہے، کوئی بھی نفلی عبادت کر کے اُس کا ثواب میت کو بخش سکتا ہے۔ مرحوم کے ایصالِ ثواب کے لیے اعزہ و اقارب کا نفسِ قرآن کریم پڑھنااور میت کے لیے دعا کرنا جائز ہے، لیکن مروجہ  طریقہ پر  باقاعدہ دن متعین کرکے اجتماعی طور پر تعزیت کے لیے جمع ہونا اور  اجتماعی فاتحہ خوانی کرنا، جس میں میت کے یہاں کھانے پینے کا التزام ہو اور لوگوں کو باقاعدہ دعوت دے کر جمع کرنا، نہ آنے والوں سے ناراضی کا اظہار کرنا  اور ان سب باتوں کو باعثِ ثواب اور شریعت کا حصہ سمجھنا بدعت ہے اور ناجائز وممنوع ہے۔

پھر نمکین کھانے، پھل اور پانی وغیرہ سامنے رکھ کر فاتحہ پڑھنے کا کوئی ثبوت صحابہ سے بھی نہیں ملتا، اس لیے اس کو ترک کرنا ضروری ہے۔

امداد الفتاوی جلد ۵ ص:۲۶۹ میں ہے:

"تیجہ، دسواں، چالیسواں وغیرہ سب بدعت کے قبیل سے ہیں اور ہندوستانی کافروں کے رسوم و رواج سے دَر آئی ہیں، اور کھانا سامنے رکھ کر جو کچھ پڑھتے ہیں یہ بھی ہندؤں کا طریقہ ہے، اس قسم کی رسومات کو ترک کرنا لازم ہے؛ کیوں کہ ’’من تشبه بقوم الخ‘‘ جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے گا وہ انہیں میں سے شمار ہوگا، اور جب کھانے کے ساتھ اس قسم کی بدعتیں بھی ہونے لگیں تو بہتر یہ ہے کہ ایسا کھانا نہ کھایا جائے؛ کیوں کہ حدیث میں ہے ’’دع ما یریبك إلى مالا یریبك‘‘مشکوک و مشتبہ چیزوں کو چھوڑ کر غیر مشتبہ چیزوں کو اختیار کرو، اور جو کھانا اور شیرینی بزرگوں کے نام نیاز کی جاتی ہے اس کی دو جہتیں ہیں: بعض جہلاء ان کو تقرب حاصل کرنے اور ان بزرگوں سے اپنی مرادیں مانگنے کی نیت سے کھلاتے ہیں اور شیرینی تقسیم کرتے ہیں، یہ تو شرک ہے، اور اس قسم کا کھانا اور شیرینی کھانا حرام ہے ’’وما اهل لغیر اللّٰه‘‘میں داخل ہونے کی وجہ سے، اور بعض حضرات اللہ ہی کے لیے کھلاتے ہیں اور ان کی نیت یہ ہوتی ہے کہ اے اللہ اس کا ثواب فلاں بزرگ کی روح کو پہنچادے تو یہ جائز ہے، اور اس طرح کا کھانا اور شیرینی وغیرہ سب حلال ہیں۔ واللہ اعلم"

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 56):

" فمن جملة كلامه: قال تاج الشريعة في شرح الهداية: إن القرآن بالأجرة لايستحق الثواب لا للميت ولا للقارئ. وقال العيني في شرح الهداية: ويمنع القارئ للدنيا، والآخذ والمعطي آثمان. فالحاصل أن ما شاع في زماننا من قراءة الأجزاء بالأجرة لايجوز؛ لأن فيه الأمر بالقراءة وإعطاء الثواب للآمر والقراءة لأجل المال؛ فإذا لم يكن للقارئ ثواب لعدم النية الصحيحة فأين يصل الثواب إلى المستأجر! ولولا الأجرة ما قرأ أحد لأحد في هذا الزمان، بل جعلوا القرآن العظيم مكسباً ووسيلةً إلى جمع الدنيا - إنا لله وإنا إليه راجعون- اهـ".

  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211201601

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں