بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فاتحہ خوانی اور قرآن خوانی کرنا کیسا ہے؟


سوال

فاتحہ خوانی اور قرآن خوانی کرنا کیسا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ مرحومین کو ایصالِ ثواب کرنا شریعت میں پسندیدہ  اور مستحسن ہے اور روایات میں یہ بات موجود ہے کہ مرحوم کو  ثواب پہنچتا بھی ہے اور وہ اس سے خوش بھی ہوتے ہیں البتہ شریعت نے ایصال ثواب کے لیے نہ کسی عمل کی تعیین کی ہے اور نہ کسی وقت کی تعیین کی ہے ، نيز ایصالِ ثواب کے لئے مروجہ فاتحہ خوانی کا شریعتِ مطہرہ میں کوئی ثبوت نہیں ، ورثاء جب  بھی چاہیں مرحومین کے لئے قرآن کریم کی تلاوت، ذکر اذکار اور درود شریف پڑھ کر اور صدقہ  و خیرات کر کے ایصال ثواب کر سکتے ہیں ، لوگوں کو اکٹھا کرنےکی ضرورت نہیں ہے ،البتہ اجتماعی قرآن خوانی کے لیے  شرط یہ   ہے کہ جو افراد قرآن خوانی میں  شریک ہو ں وہ اخلاص کے ساتھ شریک ہوں،ریاکاری اور دکھاوا مقصود نہ ہو اور  جو شریک نہ ہوان پر نکیر نہ کی جاۓ  اور قرآن خوانی پر کسی قسم کا معاوضہ نہ دیا جاۓ اور نہ ہی لیا جاۓ، اور کھانے ،پینے کا انتظام بھی نہ  کیا جاۓ، نیز اجتماعی قرآنی خوانی کو اور اس میں شرکت  کو  لازم  بھی نہ سمجھا جاۓ،لہذا ان  تمام شروط کی رعایت کے ساتھ اجتماعی قرآنی خوانی  جائز ہے۔ 

"سنن أبي داؤد"میں ہے :

"سمعت عكرمة يقول: كان ابن عباس يقول: إن النبي صلى الله عليه وسلم ‌نهى ‌عن ‌طعام ‌المتباريين ‌أن ‌يؤكل."

(كتاب الأطعمة، باب في طعام المتباريين،رقم الحديث:3754، ج:5، ص:581، ط:دار الرسالة العالمية)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"فمن جملة كلامه: قال تاج الشريعة في شرح الهداية: إن القرآن بالأجرة لايستحق الثواب لا للميت ولا للقارئ. وقال العيني في شرح الهداية: ويمنع القارئ للدنيا، والآخذ والمعطي آثمان. فالحاصل أن ما شاع في زماننا من قراءة الأجزاء بالأجرة لايجوز؛ لأن فيه الأمر بالقراءة وإعطاء الثواب للآمر والقراءة لأجل المال؛ فإذا لم يكن للقارئ ثواب لعدم النية الصحيحة فأين يصل الثواب إلى المستأجر! ولولا الأجرة ما قرأ أحد لأحد في هذا الزمان، بل جعلوا القرآن العظيم مكسباً ووسيلةً إلى جمع الدنيا إنا لله وإنا إليه راجعون."

(كتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة، مطلب في الاستئجار على الطاعات، ج:6، ص:56، ط:سعيد)

وفيه أيضا:

"ويقرأ من القرآن ما تيسر له  من الفاتحة ...... ثم يقول: اللهم أوصل ثواب ما قرأناه إلي فلان أو إليهم."

(كتاب الصلوة، باب صلوة الجنازة، ج:2، ص:243، ط:سعيد)

وفيه أيضا:

 "الحاصل ان اتخاذ الطعام عند قرأة القرآن لأجل الأكل يكره."

(كتاب الصلوة، باب صلوة الجنازة، ج:2، ص:243، ط:سعيد)

"بدئع الصنائع في ترتيب الشرائع"ميں ہے:

"من ‌صام ‌أو ‌صلى أو تصدق وجعل ثوابه لغيره من الأموات أو الأحياء جاز ويصل ثوابها إليهم عند أهل السنة والجماعة وقد صح عن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أنه ضحى بكبشين أملحين: أحدهما: عن نفسه، والآخر: عن أمته ممن آمن بوحدانية الله تعالى وبرسالته صلى الله عليه وسلم."

(كتاب الحج، فصل نبات الحرم، ج:2، ص:212، ط:دار الكتب العلمية)

"شرح عقود رسم المفتي" میں ہے:

"بل الضرر صار في الاستئجار عليه،حيث صار القرآن مكسباّ وحرفة يتجر بها، وصار القارئ منهم لايقرأ شيئاّ لوجه الله تعالى خالصاّ، بل لايقرأ إلا للأجرة، وهو الرياء المحض الذي هو ارادة العمل لغير الله تعالى،فمن أين يحصل له الثواب الذي طلب المستأجر أن يهديه لميتة؟"

(لزوم المراجعة إلي المأخذ الأصلي و عدم الإعتماد على المأخذ الثانوي، ص:15، ط:مكتبة البشرى) 

کفایت المفتی میں ہے:

"قرآن مجید افضل الاذکار اور اس کی تلاوت افضل الاشغال ہے اور تلاوت قرآن مجید فردا فردا یا اتفاقیہ اجتماع کے ساتھ کرنا جائز ہے اور اگر تعلیم قرآن مجید مقصود ہو خواہ الفاظ سکھانا مقصود یا تجوید یا معانی و مطالب قرآنیہ تو اجتماع کا اہتمام کرنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں  کہ روزانہ یا دوسرے روز یا ہفتہ میں ایک بار مثلا سکھانے والا لوگوں کو جمع کر کے سکھا دیا کرے جیسا کہ سلفا و خلفا تعلیم قرآن کی مجالس قائم کرنا مسلمانوں کا معمول ہے لیکن اگر تعلیم مقصود نہ ہو بلکہ محض تلاوت بقصد قربت و بہ نیت مثوبت مقصود ہے تو اس کے لیے اہتمام کرنا اور مجلس منعقد کرنا شریعت سے ثابت نہیں پھر اس کے اندار اور شرائط و قیود کا اضافہ بھی ہو تو بدعت ہوجائے گا جب کہ محض تلاوت قرآن مجید کا ثواب حاصل کرنا ہو تو اس کے لئے بہترین صورت یہ ہے کہ تنہا اپنے حضور قلب کے اوقات میں جس قدر بخشوع و دل بستگی کر سکے کر لیا کرے کہ یہی طریقہ سلف صالحین یعنی صحابہ کرام  اور حضرات تابعین و ائمہ مجتہدین کا  طریقہ تھا "والخير كله في اتباعهم " یعنی بھلائی تمام کی تمام انہیں حضرات کے اتباع میں ہے الخ۔"

(الحظر و الاباحۃ، ج:9، ص:54، ط:دار الاشاعت)  

حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید رحمہ اللہ "آپ کے مسائل اور ان کا حل" میں لکھتے ہیں:

"ایصالِ ثواب   کے لیے قرآن خوانی جائز ہے، بشرط یہ کہ  اس میں چند اُمور کا لحاظ رکھا جائے:

اوّل:یہ کہ جو لوگ بھی قرآن خوانی میں شریک ہوں، ان کا مطمحِ نظر محض رضائے الٰہی ہو، اہلِ میّت کی شرم اور دِکھاوے کی وجہ سے مجبور نہ ہوں، اور شریک نہ ہونے والوں پر کوئی نکیر نہ کی جائے، بلکہ انفرادی تلاوت کو اجتماعی قرآن خوانی پر ترجیح دی جائے کہ اس میں اِخلاص زیادہ ہے۔

دوم:یہ کہ قرآنِ کریم کی تلاوت صحیح کی جائے، غلط سلط نہ پڑھا جائے، ورنہ اس حدیث کا مصداق ہوگا کہ: ’’بہت سے قرآن پڑھنے والے ایسے ہیں کہ قرآن ان پر لعنت کرتا ہے۔

سوم:یہ کہ قرآن خوانی کسی معاوضہ پر نہ ہو، ورنہ قرآن پڑھنے والوں ہی کو ثواب نہیں ہوگا، میّت کو کیا ثواب پہنچائیں گے؟ ہمارے فقہاء نے تصریح کی ہے کہ قرآن خوانی کے لیے دعوت کرنا اور صلحاء و قراء کو ختم کے لیے یا سورہٴ انعام یا سورہٴ اِخلاص کی قرأت کے  لیے جمع کرنا مکروہ ہے۔ (فتاویٰ بزازیہ)"

(میت کے احکام، ایصالِ ثواب، میّت کو قرآن خوانی کا ثواب پہنچانے کا صحیح طریقہ، ج:4، ص:429، ط:مکتبہ لدھیانوی)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144501101056

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں