بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فاتحہ اور اجتماعی دعا کا حکم


سوال

 فاتحہ یا گھر کی تعمیر یا کسی اور موقع پر سب مل جو دعا کرتے ہیں تو یہ اجتماعی دعا کرنا کیسا ہے کیا قرآن وحدیث سے ثابت ہے براے مہربانی جواب عنایت فرمائیں!

جواب

واضح رہے کہ شریعت اسلامیہ  میں  میت کے  لیے ایصال ثواب کرنا پسندیدہ اور مستحسن امر ہے،میت کے اعزا ء و اقارب جب چاہیں، کوئی بھی نیک کام   کرکے میت کے لیے ایصال ثواب کرسکتے ہیں بشرطیکہ کوئی دن وغیرہ مخصوص نہ ہو،  اور  فاتحہ  خوانی کا کوئی خاص طریقہ  یا دن وغیرہ متعین نہیں  ہے،لہذا مرؤجہ فاتحہ خوانی کے لیے خاص دن متعین کرنا اور لوگوں کو دعوت دے کر بلانا  پھر کھانے وغیرہ کا اہتمام و التزام کرنا  اور جو نہ آۓ اس سے ناراضگی کا اظہار کرنا  یہ سب بدعت ہے، لہذا ناجائز ہے اور اس سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔

گھر کی تعمیر یا کسی اور ایسے موقعے پر اجتماعی دعا کرنا جہاں پر نبی کریم ﷺ سے اجتماعی دعا کی ممانعت ثابت نہیں ہے ، وہاں پر اجتماعی دعا کرنا جائز اور مستحب  ہے۔ بشرطیکہ اس کو لازم نہ سمجھا جائے۔

قرآن کریم میں ہے:

"وَالَّذِينَ جَاءُوا مِن بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ ." 

(حشر:10)

المعجم الاوسط لطبرانی  ميں ہے:

"سمعت أنس بن مالك يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «‌أمتي ‌أمة ‌مرحومة، ‌متاب ‌عليها، تدخل قبورها بذنوبها، وتخرج من قبورها لا ذنوب عليها، تمحص عنها ذنوبها باستغفار المؤمنين لها»."

(باب الألف،من إسمه احمد، 246/2، رقم:1950، ط: دار الحرمین)

فتاوی شامی میں ہے:

"ويقرأ من القرآن ما تيسر له  من الفاتحة............ ثم يقول: اللهم أوصل ثواب ما قرأناه إلي فلان أو إليهم."

(كتاب الصلوة، باب صلوة الجنازة، مطلب في زيارة القبور، 243/2، ط:سعيد)

بدئع الصنائع ميں ہے:

"من ‌صام ‌أو ‌صلى أو تصدق وجعل ثوابه لغيره من الأموات أو الأحياء جاز ويصل ثوابها إليهم عند أهل السنة والجماعة وقد صح عن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - «أنه ضحى بكبشين أملحين: أحدهما: عن نفسه، والآخر: عن أمته ممن آمن بوحدانية الله تعالى وبرسالته» - صلى الله عليه وسلم-."

(كتاب الحج، فصل نبات الحرم،212/2، ط:دار الكتب العلمية)

شرح عقود رسم المفتی میں ہے:

"بل الضرر صار في الاستئجار عليه،حيث صار القرآن مكسباّ وحرفة يتجر بها، وصار القارئ منهم لايقرأ شيئاّ لوجه الله تعالى خالصاّ، بل لايقرأ إلا للأجرة، وهو الرياء المحض الذي هو ارادة العمل لغير الله تعالى،فمن أين يحصل له الثواب الذي طلب المستأجر أن يهديه لميتة؟!"

(لزوم المراجعة إلي المأخذ الأصلي و عدم الإعتماد على المأخذ الثانوي، ص 15، ط: مكتبة البشرى) 

فتاوی شامی میں ہے:

 "الحاصل ان اتخاذ الطعام عند قرأة القرآن لأجل الأكل  يكره."

(كتاب الصلوة، باب صلوة الجنازة، مطلب في كراهية الضيافة من أهل الميت، 243/2، ط:سعيد)

المعجم الکبیر لطبرانی میں ہے:

"حدثنا محمد بن أبي يحيى، قال: رأيت عبد الله بن الزبير ورأى رجلاً رافعاً يديه بدعوات قبل أن يفرغ من صلاته، فلما فرغ منها، قال: «إن رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يكن يرفع يديه حتى يفرغ من صلاته ."

(المعجم الكبير للطبرانی 13/ 129، برقم: 324، ط:مکتبه ابن تيمية)

کنز العمال میں ہے:

"لا ‌يجتمع ‌ملأ ‌فيدعو ‌بعضهم، ويؤمن بعضهم، إلا أجابهم الله."

(الباب الثامن:الدعاء،‌‌الفصل الرابع: إجابة الدعاء باعتبار الذوات والأوقات،107/2،ط:مؤسسة الرسالة)

سنن ابو داؤد میں ہے:

"عن ‌ثوبان، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ثلاث لا يحل لأحد أن يفعلهن: ‌لا ‌يؤم ‌رجل ‌قوما ‌فيخص ‌نفسه ‌بالدعاء ‌دونهم، فإن فعل فقد خانهم، ولا ينظر في قعر بيت قبل أن يستأذن، فإن فعل فقد دخل، ولا يصلي وهو حقن حتى يتخفف."

(كتاب الطهارة،باب أيصلي الرجل وهو حاقن،66/1، ط:دار الرسالة العالمية)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144408102500

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں