بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

دارالحرب میں کافر سے سودی معاملات اور کافر کے سودی پیسے سے لگائی ہوئی سبیل سے پانی پینا دونوں مسئلوں کی وضاحت


سوال

"فتاوی رشیدیہ"  (ص:  554) پے  حضرت نے  لکھا ہے کہ ہندو کے سودی پیسے سے لگائی سبیل سے پانی پینا جائز ہے ۔اس کی وضاحت مطلوب ہے کہ کیسے جائز ہے، جب کہ اسی فتاوی رشیدیہ میں حضرت ہندوستان کو دارالحرب قرار دینے میں متوقف ہیں اور  کافر سے سودی لین دین سے بھی روکتے ہیں!

جواب

واضح رہے کہ مذکورہ دونوں مسئلے درست ہیں، اور ان میں فرق کی وجہ ان کی بنیاد  کا مختلف ہونا ہے، وہ یہ کہ جب تک کوئی شخص اسلام قبول نہ کرے اس وقت تک وہ اسلام کے فروعی اَحکام کا مکلف نہیں ہے،  اب اگر غیر مسلم سودی معاملہ کرکے سودی کمائی حاصل کرتا ہے اور کسی مسلمان پر صرف کرتا ہے تو اس معاملے میں مسلمان کا عمل دخل نہیں ہے، اور غیر مسلم ابھی تک مسلمان نہیں ہے، اس لیے اسے "ربا" (سود) کی حرمت کا مکلف قرار نہیں دیا جاسکتا، لہٰذا اس نے اگر اپنی کمائی سے مسلمان کو کھلا پلا دیا تو اس کی اجازت ہے۔ لیکن جو شخص اسلام قبول کرلے وہ اسلام کے تمام  احکام کا مکلف ہے، خواہ وہ اصولی (عقائد سے متعلق) ہوں یا فروعی (اعمال سے متعلق) ہوں، لہٰذا مسلمان خواہ دار الحرب میں ہو یا دار الاسلام میں، اور وہ سودی معاملہ مسلمان سے کرے یا غیر مسلم سے،  اس کی طرف  سود کی حرمت کا حکم متوجہ رہے گا،اور  ان تمام صورتوں میں اس کی آمدن حرام ٹھہرے گی۔

اس تمہید کے بعد سوال میں مذکورہ دونوں مسئلوں کی وضاحت اور جواب یہ ہے:

1)    دار الحرب میں کافر حربی سے سود کے جائز ہونے یا نہ ہونے میں فقہاءِ کرام کے درمیان اختلاف ہے،  احناف میں سے  امام ابو یوسف رحمہ اللہ دارالحرب میں کافر حربی سے سود ی معاملے کو مطلقاً ناجائز کہتے ہیں، ان کا مستدل وہ نصوص ہیں جن میں  سود کو مطلقاً حرام قراردیا  گیاہے،  البتہ حنفیہ میں سے امام ابو حنیفہ اور امام محمد رحمہما اللہ  دارالحرب میں کافر حربی سے سود کو ایک غریب حدیث " لاربا بین المسلم والحربی"  کی بنیاد پر چند قیود کے ساتھ جائز کہتے ہیں۔ لیکن چوں کہ معاملہ سود کا ہے جس کی حرمت قرآنی آیات میں بغیر کسی قید کے منصوص ہے ؛  اس لیے حنفیہ کے  یہاں جمہور  کے مسلک (یعنی حرمت والے قول کو ) ترجیح حاصل ہے اور اسی  پر فتویٰ ہے، اور  طرفین کے مسلک (یعنی جواز کے قول) کو مرجوح قرار دیا گیا ہے۔   لہٰذا  دار الحرب میں بھی مسلمان کے لیے کسی غیر مسلم سے سودی معاملہ کرنا جائز نہیں ہے۔

2)  کافر  سودی پیسے خرچ کرکے پانی کی سبیل لگائے اور یہ سودی معاملہ اس کے مذہب میں جائز ہو  تو اس سے مسلمان کے  لیے پانی پینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے؛  اس لیے کہ کافر اسلام کے فروعی احکام  کا مکلف نہیں ہے۔

الإحکام  في أصول الأحکام  للآمدي    میں ہے:

"فلا تكليف قبل الإيمان، وهو المطلوب."

( جلد ۱ ، ص : ۱۴۵ ط : المکتب الاسلامی بیروت )

کفایت المفتی میں ہے ۔

"( سوال ) ایک ہندو ٹھیکدار نے جس کا واحد ذریعہ معاش خنزیر کا گوشت بیجنا ہے، ایک خوشی کی تقریب میں لڈو بنوا کر بازار کے عام ہندو مسلمان کو تقسیم  کیے ہیں،  کیا ایسی حرام کمائی کی مٹھائی کھانا مسلمانوں کو جائز ہے  ؟ 

( جواب ) جس شخص کی کمائی حرام ہو و ہ اگر کسی دوسرے شخص سے قرض لے کر مسلمانوں کو کوئی چیز تقسیم کرے تو اس قرض لی ہوئی چیز کو لےلینا اور استعمال کرنا جائز ہے، لیکن ایسے شخص سے جو خنزیر کی بیع و شراء کرتا ہے،  مسلمانوں کو علیحدگی کرنی  چاہیے اور اس کی چیزیں مسلمانوں کو استعمال کرنی بہتر نہیں،  یہ حکم مسلمانوں کا ہے،  مگر سوال میں مذکور ہے کہ وہ شخص ہندو ہے تو ہندوؤں کے مذ ہب میں اگر بیعِ خنزیر جائز ہے تو مسلمانوں کو ان کی تحصیلِ معاش بذریعہ بیعِ  خنزیر پر لحاظ کرنا ضروری نہیں ۔ " 

( جلد ۹ ،ص : ۱۳۱ ط: دار الاشاعت ) 

مذکورہ بالا تفصیل سے واضح ہوا کہ مفتی رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ کےدونوں فتوے اپنی جگہ درست ہیں۔

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144301200157

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں