یونیورسٹی کا ایک سٹوڈنٹ ہے، فتاویٰ جات میں دل چسپی بہت زیادہ ہے، تقریباً ڈیڑھ دو سال سے دارلعلوم دیوبند اور جامعہ بنوری ٹاؤن کے فتاویٰ جات کو موبائل سے دن رات پڑھنے کا معمول ہے، اور اب مولانا یوسف لدھیانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی کتابیں اور فتاویٰ محمود پڑھنا شروع کیا ہے، کیا ایسے فتاویٰ جات کو علماء کی نگرانی کے بغیر پڑھنا درست ہے یا نہیں؟ فی الحال مدرسہ میں ٹائم نہیں دے سکتا، ڈگری کے بعد ارادہ ہے؟
آپ کا جذبہ نیک اور قابلِ قدر ہے، مذکورہ فتاویٰ اور کتابیں مستند ہیں، آپ ذاتی استفادے کی حد تک انہیں پڑھ سکتے ہیں، البتہ فتاویٰ اور مسائل کی جزئیات میں بعض باریک فرق ہوتے ہیں، جو بسا اوقات عام مفتی سے بھی اوجھل ہوجاتے ہیں، اس لیے بہتر ہے کہ اگر یہ کتابیں پڑھنی ہوں تو اہلِ حق میں سے کسی مستند مفتی کی راہ نمائی سے مطالعہ کریں، اور ان سے رجوع کرکے راہ نمائی لیتے رہیں، نیز یہ بھی ملحوظ رہے کہ مذکورہ فتاویٰ پڑھ کر لوگوں کو مسائل بتانے یا فتویٰ دینے کی اجازت نہیں ہوگی، فتویٰ دینے کے لیے اس کے لیے درکار ضروری علوم میں مہارت اور کسی مستند اور مشّاق مفتی کی نگرانی میں تمرین ضروری ہے۔
آپ کے لیے بہتر ہے کہ "معارف القرآن" از مفتی محمد شفیع رحمۃ اللہ علیہ اور "معارف الحدیث" از مولانا منظور احمد نعمانی رحمۃ اللہ علیہ کا مطالعہ کریں۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144205200978
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن