بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

فاسقہ عورت کی گواہی شرعاً قابل قبول نہیں ہے


سوال

کسی عورت نےبغیرکسی خلع یاطلاق کےدوسرانکاح کیا،اگروہ خاتون عدالت میں کسی بھی معاملہ میں بطورگواہ پیش ہوتوشریعت میں اس کی گواہی کی کیااہمیت ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ خاتون نےاپنے شوہرکےنکاح میں ہوتےہوئے طلاق یاخلع  لیے بغیر کسی دوسرےشخص سے نکاح کیا،تو اس  سے مذکورہ خاتون کی عدالت ساقط ہوگئی ہے، لہٰذاایسی خاتون اگرعدالت (کورٹ)میں گواہی دےتوقاضی پرایسی خاتون کی گواہی قبول کرناواجب نہیں ہے،تاہم اگر قاضی کوقرائن سےیہ بات معلوم ہوجائےکہ یہ خاتون سچ بات کہہ رہی ہےتواس صورت میں قاضی کواس کی گواہی قبول کرنےکا بھی حق حاصل ہے۔

قرآن مجید میں ہے:

"وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۖ كِتَابَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ ۚ وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذَٰلِكُمْ أَن تَبْتَغُوا بِأَمْوَالِكُم مُّحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ ۚ فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً ۚ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا تَرَاضَيْتُم بِهِ مِن بَعْدِ الْفَرِيضَةِ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا."(سورة النساء، آية: 29)

ترجمہ:"اور وہ عورتیں جوکہ شوہروالیاں ہیں،مگر جوکہ تمہاری مملوک ہوجاویں اللہ تعالیٰ نےان احکام کو تم پرفرض کردیاہے،اوراُن عورتوں کےسوا اورعورتیں تمہارےلیےحلال کی گئی ہیں،یعنی یہ کہ تم اُن کو اپنی مالوں کےذریعہ سےچاہواس طرح سےکہ تم بیوی بناؤصرف مستی ہی نکالنا ہوپھر جس طریق سےتم اُن عورتوں سےمنتفع ہوئےہوسواُن کواُن کےمہردو جوکچھ مقرر ہوچکےہیں،اورمقرر ہوئےبعد بھی جس پر تم باہم رضامند ہوجاؤاس میں تم پر کوئی گناہ نہیں بلاشبہ اللہ تعالیٰ بڑےجاننےوالوں میں بڑےحکمت والے ہیں۔"(بیان القرآن)

الجوهرة النيرةمیں ہے:

"(قوله ‌ولا ‌بد ‌في ‌ذلك ‌كله ‌من ‌العدالة ولفظ الشهادة) هذا إشارة إلى جميع ما تقدم حتى تشترط العدالة....وإنما شرطت العدالة لقوله تعالى {ممن ترضون من الشهداء}قال في الذخيرة أحسن ما قيل: في تفسير العدل أن يكون مجتنبا للكبائر ولا يكون مصرا على الصغائر ويكون صلاحه أكثر من فساده وصوابه أكثر من خطئه وقال في الينابيع: العدل من لم يطعن عليه في بطن ولا فرج أي لا يقال: إنه يأكل الربا والمغصوب وأشباه ذلك ولا يقال أنه زان فإن موضع الطعن البطن والفرج ولهما توابع فإذا سلم عنهما وعن توابعهما كان عدلا والكذب من جملة الطعن في البطن لأنه يخرج منه."

(كتاب الشهادات، ج:2، ص:226، ط: المطبعة الخيرية)

فتح القدیر میں ہے:

"(قوله ‌ولا ‌بد ‌في ‌ذلك ‌كله ‌من ‌العدالة....أما اشتراط العدالة فلقوله تعالى {وأشهدوا ذوي عدل منكم} وقال تعالى {ممن ترضون من الشهداء} ولأن العدالة هي المعينة لجهة الصدق."

‌‌(كتاب الشهادات، ج:7، ص:375، ط: دار الفكر، لبنان)

اللباب في شرح الكتاب میں ہے:

"(‌ولا ‌من ‌يأتي ‌بابا ‌من ‌الكبائر ‌التي ‌يتعلق ‌بها ‌الحد) كالزنا والسرقة ونحوهما؛ لأنه يفسق."

(‌‌كتاب الشهادات، ج:4، ص:62، ط: المكتبة العلمية، بيروت - لبنان)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144410100718

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں