بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فسخ نکاح کا عدالتی فیصلہ


سوال

12سال پہلے میری شادی ہوئی ہے،میرا شوہرمجھ پر انتہائی ظلم کرتا ہے،12 سال کے اس عرصہ میں اس نے مجھے نان ونفقہ نہیں دیا ہےبلکہ میں سلائی کرکے اپنا اور اپنے شوہر کا پیٹ  پالتی رہی،مسلسل ظلم کے بعد میں تنگ آکر اپنے میکے چلی گئی اور وہاں رہنے لگی،بعد ازاں ہم نے کورٹ  میں فسخ نکاح کا مقدمہ دائرکیا،کورٹ نے میرے شوہر کو حاضر ہونے کاحکم دیا ، وارنٹ کے باوجود وہ حاضر نہیں ہوا،چنانچہ عدالت نے میرے حق میں فیصلہ کرکے فسخِ نکاح کا حکم جاری کیا جو کہ استفتاء کے ساتھ منسلک ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ :

1۔مذکورہ عدالتی فیصلہ نافذ ہے یا نہیں؟

2۔مہر  پچاس ہزارروپے مقرر ہوا تھاوہ بھی ادا نہیں کیا ہے تو اس کا کیا حکم ہے؟

3۔جہیز کا سامان بھی اس کے قبضہ میں ہے اس کا کیا حکم ہے؟

4۔میرا ذاتی بارہ تولہ سونا بھی اس کے قبضہ میں ہے اس کا کیا حکم ہے؟

جواب

1۔صورت ِمسئولہ میں منسلکہ فیصلہ کو یک طرفہ ہونے کی وجہ ےشرعاًخلع قرار نہیں دیا جاسکتا،اسی طرح اسے فسخِ نکاح بھی قرار نہیں دیا جاسکتا؛اس لیے کہ اس میں شوہر کے نفقہ نہ دینے کودو شرعی گواہوں کے ذریعہ ثابت نہیں کیا گیابلکہ صرف ایک گواہ کی گواہی پر اکتفاء کیا گیا ہے،لہٰذااس فیصلے کے باوجود سائلہ اور اس کے شوہر کا نکاح برقرار ہے، سائلہ اگراپنے شوہر کے  ساتھ رہنا نہیں چاہتی تو کسی طرح اپنے شوہر کو طلاق دینے پر آمادہ کرے ،اگر کسی طرح طلاق کی صورت بھی نہ بن سکے تو پھرمہرکے بدلہ میں شوہرسےخلع لینے کی کوشش کرے،اوراگر ایسا کرنا ممکن  نہ  ہوکہ شوہر کی  رضامندی سے خلع یا طلاق ہوجائے،اور شوہرعورت کے نان ونفقہ بھی ادا کرنے پر تیار نہ ہو تو سخت مجبوری کی حالت میں مذکورہ عورت کو فسخ نکاح  کا اختیار حاصل ہے۔

مجبوری کی دو صورتیں ہیں :

1۔یہ کہ عورت کے خرچ کا کوئی انتظام نہ ہوسکے یعنی نہ تو کوئی شخص  عورت کے خرچ کا بندوبست کرتا ہواور نہ عورت حفظ آبرو کے ساتھ کسب معاش پر قدرت رکھتی ہو۔

2۔اگر بسہولت یا بمشکل خرچ کا انتظام تو ہوسکتاہے لیکن شوہر سے علیٰحدہ رہنے میں گناہ میں مبتلا ہونے کا قوی اندیشہ ہو۔

 مذکورہ صورت حال میں  سائلہ کیلئے اپنا نکاح ختم کرانے کا طریقہ یہ ہے کہ سائلہ کسی مسلمان جج کی عدالت میں اپنے شوہر کے نان ونفقہ کا انتظام نہ کرنے کی بناءپرفسخ نکاح کا مقدمہ دائر کرےاورسب سے پہلے اپنے نکاح کو شرعی گواہوں کےذریعے ثابت کرے اور یہ ثابت کرے کہ میرےشوہر نے اتنے عرصہ سے نان ونفقہ کاکوئی انتظام نہیں کیا،اس کے بعد عدالت شوہر کوعدالت میں حاضر ہونے کا سمن جاری کرےگی،اگرشوہر عدالت میں حاضر ہوکر گھر بسانے پر آمادہ ہوجا ئے اورنان ونفقہ کی ادائیگی پر راضی ہوجائے توٹھیک ،اوراگر وہ عدالت میں حاضرنہ ہو یا حاضر ہو لیکن نان ونفقہ کی ادائیگی پر راضی نہ ہو تو عدالت دونوں کا نکاح فسخ کرائےجس کے بعد سائلہ کے لیےاپنی عدت (پوری تین ماہواریاں)گزارکردوسری جگہ نکاح کرناجائز ہوگا۔

2۔مہر سائلہ کا حق ہے،سائلہ کے شوہر پر لازم ہے کہ سائلہ کو اس کاپورا مہر اداکرے،لیکن اگر سائلہ مہر کے عوض خلع لے گی تو یہ مہر چھوڑناہوگا،اس کا مطالبہ نہیں کرسکے گی۔

3۔جہیز کا سامان سائلہ کی ملکیت ہے؛لہٰذا شوہرپرلازم ہے کہ بہرصورت سائلہ کو جہیز کاتمام سامان اداکرے۔

4۔سائلہ کا 12تولہ سونا جو شوہر کےقبضے میں ہے،اس پر لازم ہے کہ سائلہ کو مذکورہ سوناواپس کرے،یہ سائلہ کا حق ہے۔

حیلۃ ناجزۃ میں ہے :

وأما المتعنت الممتنع عن الإنفاق ففي مجموع الأمير مانصه:إن منعها نفقة الحال فلها نفقة القيام فإن لم يثبت عسره أنفق أو طلق وإلا طلق عليه.

قال محشيه قوله:وإلا طلق أي طلق عليه الحاكم من غير تلوم إلي أن قال: وإن تطوع بالنفقة قريب أوأجنبي فقال ابن القاسم لها أن تفارق لأن الفراق قد وجب لها.وقال ابن عبدالرحمن لا مقال لها لأن سبب الفراق هو عدم النفقة قد انتهي وهو الذي تقضيه المدونة كما قال ابن المناصف."

(الحیلۃ الناجزۃ،الروايۃالثالثۃوالعشرون ص:150،ط: دارالإشاعت، وكذا في أحسن الفتاوی باب خيارالفسخ ،5/252ط:سعيد)

فتاوٰی شامی میں ہے:

"وفي القهستاني عن شرح الطحاوي: السنة إذا وقع بين الزوجين اختلاف أن يجتمع أهلهما ليصلحوا بينهما، فإن لم يصطلحا جازالطلاق والخلع."

(باب الخلع،ج3،ص441،ط:سعید)

ہندیہ میں ہے:

"إذا تشاق الزوجان وخافا أن لا يقيما حدود الله فلا بأس بأن تفتدي نفسها منه بمال يخلعها به فإذا فعلا ذلك وقعت تطليقة بائنة ولزمها المال كذا في الهداية."

(کتاب الطلاق،الباب الثامن فی الخلع وما فی حکمہ،الفصل الاول فی شرائط الخلع  وحکمہ وما یتعلق بہ،ج1،ص488،ط:رشیدیہ)

بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع میں ہے:

"(وأما) بيان ما يتأكد به المهر فالمهر يتأكد بأحد معان ثلاثة:الدخول والخلوة الصحيحة وموت أحد الزوجين، سواء كان مسمى أو مهر المثل حتى لا يسقط شيء منه بعد ذلك إلا بالإبراء من صاحب الحق۔۔۔الخ."

(کتاب النکاح،فصل بیان مایتاکد بہ المھر،ج2،ص291،ط:دارالکتب العلمیۃ)

الدر مع الرد میں ہے:

"(‌جهز ‌ابنته بجهاز وسلمها ذلك ليس له الاسترداد منها ولا لورثته بعد أن سلمها ذلك وفي صحته) بل تختص به (وبه يفتى)."

(کتاب النکاح،باب المھر،3/155،ط:سعید)

مشکوٰۃ المصابیح میں ہے:

"وعن أبي حرة الرقاشي عن عمه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ألا تظلموا ألا ‌لا ‌يحل ‌مال امرئ إلا بطيب نفس منه. رواه البيهقي في شعب الإيمان والدارقطني في المجتبى."

(کتاب البیوع،باب الغصب والعاریۃ،الفصل الثانی،ج1،ص261،رحمانیہ)

البحر الرائق میں ہے:

" لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي."

(کتا ب الحدود،فصل فی التعزیر،ج5 ،ص44،ط:دارالکتاب الاسلامی)

شرح المجلۃ لرستم باز میں ہے:

"لایجو ز لا حد ان یتصرف فی ملک الغیر بلا اذنہ."

(المقالۃ الثانیۃ فی بیان القواعد الکلیۃ،المادہ 96،ج1،ص51،ط:رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100031

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں