بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فاسق شخص سے قطع تعلقی


سوال

ایک آدمی نے اپنی بیٹی سے منہ کالا کیا جس کی وجہ سے بیوی ہمیشہ  کے لیے حرام  ہوگئی، لیکن وہ دونوں یعنی میاں بیوی جبرا ایک ساتھ رہتے ہیں، سوال یہ ہے کہ ان کے ساتھ سلام کلام کرنا لین دین کرنا اور ان کے گھر آنا جانا کیسا ہے کیا ان سے قطع تعلق جائز ہے؟کیوں کہ وہ ایک کبیرہ گناہ کا قصدًا ارتکاب کر رہے ہیں ۔

جواب

واضح رہے کہ اگر کوئی شخص کسی  گناہ کے کام   میں مبتلا ہو اور تنبیہ کے باوجود  اس سے باز نہ آتا ہو  تو اُس کی اصلاح کی نیت سے اُس سے قطع تعلقی کی جا سکتی ہے؛ تا کہ وہ اپنی غلط عادات سے باز آ جائے، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے خود حضرت کعب بن مالک اور اُن کے دو ساتھیوں (رضی اللہ عنہم)  کے غزوہ تبوک میں  پیچھے رہ جانے کی وجہ سے متارکت اور قطع تعلقی  کا حکم فرمایا تھا۔

پھر  اگر کوئی شخص لوگوں کو سنگین گناہوں میں مبتلا کرنے کا باعث بنتا ہو اور اُس سے باز نہ آتا ہو تو ایسے شخص سے اُس  کی اصلاح کی نیت  سے   قطع تعلقی کی جا سکتی ہے  تاوقتیکہ وہ اپنی نازیبا حرکات اور گناہ کے کاموں سے توبہ  کر لے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص کا اپنی بیوی سے فوری علیحدگی اختیار کرنا لازم ہے ۔ اگر وہ علیحدگی اختیار نہ کریں تو انہیں خاندان اور برادری کے ذریعہ علیحدگی پر مجبور کرنا اور جب تک وہ علیحدگی اختیار نہ کریں ان سے قطع تعلق کرنا اور  ان کا معاشرتی بائیکاٹ کرنا جائز ہے۔

"قال: وأجمع العلماء على أن من خاف من مكالمة أحد وصلته ما يفسد عليه دينه أو يدخل مضرة في دنياه يجوز له مجانبته وبعده، ورب صرم جميل خير من مخالطة تؤذيه. وفي النهاية: يريد به الهجر ضد الوصل، يعني فيما يكون بين المسلمين من عتب وموجدة، أو تقصير يقع في حقوق العشرة والصحبة دون ما كان من ذلك في جانب الدين، فإن هجرة أهل الأهواء والبدع واجبة على مر الأوقات ما لم يظهر منه التوبة والرجوع إلى الحق، فإنه صلى الله عليه وسلم لما خاف على كعب بن مالك وأصحابه النفاق حين تخلفوا عن غزوة تبوك أمر بهجرانهم خمسين يوما، وقد هجر نساءه شهرا وهجرت عائشة ابن الزبير مدة، وهجر جماعة من الصحابة جماعة منهم، وماتوا متهاجرين، ولعل أحد الأمرين منسوخ بالآخر.

قلت: الأظهر أن يحمل نحو هذا الحديث على المتواخيين أو المتساويين، بخلاف الوالد مع الولد، والأستاذ مع تلميذه، وعليه يحمل ما وقر من السلف والخلق لبعض الخلف، ويمكن أن يقال الهجرة المحرمة إنما تكون مع العداوة والشحناء، كما يدل عليه الحديث الذي يليه، فغيرها إما مباح أو خلاف الأولى."

(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح،كتاب الآداب،باب ما ینهي عنه من التهاجر۔۔۔۔ (8 / 3147)،دار الفکر بیروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402100718

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں