بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

فاسق کی امامت کا حکم


سوال

کیا اس امام کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے جس میں درج ذیل امور پائے جاتے ہوں:

1۔ شاملات کی زمین جو کسی اور کے نام تھی، عدالت میں مقدمہ دائر کر کے اس کو اپنے نام کرایا ہو۔

2۔ بھاری رقم کے عوض ایسے تعویذات کرتا ہے جس سے دوسرے مسلمانوں کو جانی مالی نقصان پہنچتا ہو۔

3۔ سرکاری اسکول کی زمین جعلی کاغذات کے ذریعے محکمہ تعلیم اور پٹواری سے اپنے نام انتقال کروائی ہو اور اپنے بیٹوں کو وہاں توکریاں دلوائیں ہو۔ 

4۔ ناجائز طریقے سے دوسروں کی جائیدادوں پر قبضہ کیا ہو، یتیموں کی وراثت غلط طریقے سے اپنے نام کروائی ہو، اور پھر اس کے لیے مقدمات کر کے عدالت میں جھوٹ بولا ہو اور جھوٹے گواہ پیش کیے ہوں۔

5۔ اس کے علاوہ وعدہ خلافی، امانت میں خیانت وغیرہ کا مرتکب ہو، مسجد کی تعمیر کے لیے آیا ہوا مٹیریل اپنے گھر میں استعمال کیا ہو، مسجد کا چندہ اپنے ذاتی مفاد کے لیے استعمال کرتا ہو۔ 

وضاحت: گاؤں دیہات کی مسجد ہے جس کا لیٹر پیڈ، کمیٹی وغیرہ نہیں ہے۔

جواب

واضح رہے کہ کسی پر جھوٹا الزام اور بہتان لگانا شرعاً انتہائی سخت گناہ اور حرام ہے، احادیث نبویہ میں اس کے بارے میں سخت وعیدیں آئی ہیں چنانچہ ایک حدیث میں ارشادِ نبوی ہے: مسلمان کے لیے یہ روا نہیں کہ وہ لعن طعن کرنے والا ہو۔ ایک اور حدیث میں ہے:  جو شخص کسی دوسرے کو فسق کا طعنہ دے یا کافر کہے اور وہ کافر نہ ہو تو اس کا فسق اور کفر کہنے والے پر لوٹتا ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً سائل کا بیان درست ہو اور امام میں مذکورہ برائیاں ہوں تو اس کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہ ہے، اگر قریبی مسجد میں متدین و متقی امام موجود ہو تو اس کی اقتدا میں نماز ادا کرنے کی کوشش کی جائے، اور اگر امام میں مذکورہ برائیاں نہیں ہیں تو یہ  الزام لگانے والا عنداللہ سخت مجرم ہوگا۔

حاشیۃ طحطاوی میں ہے:

"كره إمامة "الفاسق" العالم لعدم اهتمامه بالدين فتجب إهانته شرعا فلا يعظم بتقديمه للإمامة وإذا تعذر منعه ينتقل عنه إلى غير مسجده للجمعة وغيرها وإن لم يقم الجمعة إلا هو تصلى معه"۔

(کتاب الصلاۃ، فصل فی بیان الأحق بالإمامة، ص:303، 304، ط:دار الکتب العلمیة)

مشکوٰۃ المصابیح میں ہے:

" وعن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لا ينبغي لصديق أن يكون لعانا 

قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا يرمي رجل رجلا بالفسوق ولا يرميه بالكفر إلا ارتدت عليه إن لم يكن صاحبه كذلك۔"

(کتاب الآداب، باب حفظ اللسان، ص:411، ج:2، ط:قدیمی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307102035

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں