بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

فیملی پلاننگ کرنے والے شخص کی اذان، اقامت اور امامت کا حکم


سوال

کیا فیملی پلاننگ کرنے والا شخص ، اذان و اقامت اور امامت کرواسکتا ہے ؟

جواب

جواب سے قبل  تمہید  کے  طور پر ”فیملی پلاننگ“ سے متعلق تفصیلی حکم کا جان لینا ضروری ہے۔اور   وہ تفصیل  یہ  ہے  کہ :

شریعتِ مطہرہ میں نکاح  کے من جملہ اغراض ومقاصد میں سے  ایک اہم مقصد توالد و تناسل  ہے،   اولاد  کی کثرت مطلوب اور محمود  ہے، یہی وجہ ہے کہ حدیثِ مبارک میں زیادہ بچہ جننے والی عورت سے نکاح کرنے کی ترغیب دی گئی ہے، فیملی پلاننگ کا مروجہ منصوبہ   منشاءِ شریعت کے خلاف ہے، اس خطرے  کے پیشِ  نظر  کہ بچے زیادہ ہوں گے تو ان کے معاش کا انتظام کیسے ہوگا، فیملی پلاننگ کرنا حرام ہے۔

ہاں ! اعذار  کی بنا پر عارضی طور پر مانعِ حمل تدابیر اختیار کی جاسکتی ہیں، چند اعذار ذیل میں لکھے جاتے ہیں جن کی موجودگی میں  عارضی طور پر مانعِ حمل تدابیر اختیار کی جاسکتی ہیں:

1۔ عورت اتنی کم زور ہو  کہ حمل کا بوجھ   اٹھانے کی استطاعت نہ ہو، حمل اور درد  ِ زہ کی تکالیف جھیلنے کی سکت نہ ہو  یا بچہ کی ولادت کے بعد   شدید کم زوری اور نقاہت لاحق ہونے کا اندیشہ ہو ۔

2۔  دو بچوں کے درمیان اس غرض سے مناسب وقفہ کے لیے کہ بچے کو ماں کی صحیح نگہداشت مل سکے، اور دوسرے بچے کا حمل ٹھہرنے کی وجہ سے پہلے بچے کے لیے ماں کا دودھ مضر اور نقصان دہ نہ بنے۔

3 ۔ عورت بد اخلاق  اور سخت مزاج ہو اور خاوند اسے طلاق دینے کا ارادہ رکھتا ہو، اور اندیشہ ہو کہ بچہ کی ولادت کے بعد اس کی بداخلاقی میں مزید اضافہ ہوجائے گا، ایسی صورت میں بھی عزل جائز ہے۔

4۔ اسی طرح شوہر  طویل سفر میں ہو، یا دارالحرب  میں ہونے کی وجہ سے بچے کے جانی یا ایمانی نقصان کا اندیشہ ہوتو اس صورت میں بھی عزل جائز ہے۔

مذکورہ صورتوں میں مانعِ حمل ایسا طریقہ اور تدبیر اختیار کرنا درست ہے کہ جس سے وقتی طور پر حمل روکا جاسکے، اس طور پر کہ جب چاہیں دوبارہ توالد و تناسل کا سلسلہ جاری رکھا جاسکتا ہو۔ باقی آپریشن کرکے بچہ دانی  نکلوانا یا نس بندی کروانا یا کوئی ایسا طریقہ اپنانا جس سے توالد وتناسل (بچہ پیدا کرنے) کی صلاحیت بالکل ختم ہوجائے، شرعاً جائز نہیں ہے، یہ منشاءِ شریعت کے خلاف، نظامِ خداوندی میں دخل اندازی اور کفرانِ نعمت ہے۔

لہذا اگر کوئی شخص فیملی پلاننگ کی پہلی صورت  (مستقل طور پر اولاد کا سلسلہ ختم کرواتا ہے یا رزق کی تنگی کے اندیشے کی وجہ سے مانعِ حمل تدبیر) اختیار کرتا ہے تو وہ شریعت کی نگاہ میں فاسق ہے ، اور فاسق شخص    کی امامت مکروہِ تحریمی ہے، اور یہی حکم اس شخص کی اذان و اقامت کا ہے، لیکن اگر کسی جگہ فاسق کے علاوہ کوئی اور امام میسر نہ ہو تو فاسق کی اقتدا  میں نماز پڑھنا، تنہا نماز پڑھنے سے افضل ہے۔نماز بہر حال ایسے شخص کی اقتدا میں ادا  ہوجائے گی، واجب الاعادہ نہیں ہوگی،  لیکن اگر متبادل صورت ہوسکتی ہو تو ایسے شخص کی اقتدا  کی عادت نہیں بنانی چاہیے۔

اور اگر کوئی شخص  وقتی طور  پر   مانع حمل  کی کوئی تدبیر اختیار کرتا ہے ، جس کی تفصیل اوپر لکھی جاچکی ہے، تو ایسے شخص کی اذان و اقامت اور اس کی اقتدا  میں نماز ادا کرنا درست ہے۔

لیکن یہ ملحوظ رہے کہ  کوئی شخص کس وجہ سے عارضی مانعِ حمل تدبیر اختیار کر رہا ہے، اس کا تعلق انسان کے نظریے اور دل سے ہے، دل کا ارادہ دوسرا شخص نہیں جانتا، لہٰذا جب تک اس شخص کے اپنے بیان یا کسی قوی قرینے سے علم نہ ہو کہ یہ شخص  رزق کی تنگی کے اندیشے سے عارضی تدبیر اختیار کر رہا ہے تو اسے فاسق نہیں کہا جائے گا۔

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح میں ہے:

"كره امامة الفاسق ... والفسق لغةً:  خروج عن الاستقامة، وهو معنى قولهم: خروج الشيء عن الشيء على وجه الفساد، وشرعًا : خروج عن طاعة الله تعالى بارتكاب كبيرة، قال القهستاني: أي أو إصرار على صغيرة وينبغي أن يراد بلا تأويل، وإلا فيشكل بالبغاة، وذلك كتمام ومراء وشارب خمر اهـ قوله: "فتجب إهانته شرعًا فلايعظم بتقديمه للإمامة" تبع فيه الزيلعي، ومفاده كون الكراهة في الفاسق تحريمية."

(فصل في بيان الأحق بالإمامة، ص:303ط:دارالكتب العلمية)

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے :

"و منها ـ أي من صفات المؤذن ـ أن يكون تقياً؛ لقول النبي صلى الله عليه وسلم : «الإمام ضامن، و المؤذن مؤتمن» ، و الأمانة لا يؤديها إلا التقي. (ومنها) : أن يكون عالما بالسنة لقوله - صلى الله عليه وسلم -:: «يؤمكم أقرؤكم، و يؤذن لكم خياركم» ، و خيار الناس العلماء.‘"

(ج:1، ص:150، ط:دار الكتب العلمية)

الفتاوى الهندية  میں ہے:

"و ینبغي أن یكون المؤذن رجلاً عاقلاً صالحاً تقیاً عالماً بالسنة، کذافي النهایة". 

(ج:1، ص:53، ط:دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144301200187

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں