بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فاسق مفسد آدمی سے سوشل بائیکاٹ کرنا


سوال

میرا مامو ں ہے، جو تقریبا دنیا جہاں کے تمام نشے کرتا ہے اور لوگوں کے حقوق (مال) کھائے ہیں ، اس نے ماں کو بھی مارا ہے اور باپ کو بھی مکے سے مارا ہے، یہ روزانہ بیوی کو ایسا مارتاہے کہ کوئی حیوان کو بھی ایسا نہ مارے، مختصرا  دنیا کے کوئی گناہ بتاؤ، وہ اس ملعون نے کئے ہیں۔

اب مفتی صاحب یہ بتائیں کہ  کیا ہمارے لئے اس کا قتل کرنا جائز ہے؟ ہم نے اس کو ہسپتال میں داخل کیا ہے، جیل بھیجاہے، لیکن کچھ نہیں بنا، جیل میں بھی نشہ کرتا تھا، تو حکومت بھی تعاون نہیں کرتی ، کم از کم کیا ہمارے محلے والے اس سے پناہ کے لئے اس کو پاؤں میں گولی مار سکتے ہیں، اس نے مسجد کو بھی معاف نہیں کیا، اب ہماری عزت و ناموس کو خطرہ ہے،  آپ اس مسئلے کا حل بتائیے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ گھر والوں کو  چاہیے کہ اول قانونی چارہ جوئی کے ذریعہ سے مذکورہ شخص کی اصلاح کی کوشش کرلیں پھر بھی اگر مفید ثابت نہ ہو تو ایسے شخص سے لا تعلقی/سوشل بائیکاٹ یاعلاقہ بدر  کیا جائےاور گھر والے اس کے  معاملات سے براءت کا اعلان کردیں،تاہم  اس کو پاؤں میں گولی مارنا،قتل کرنا یا قانون اپنے ہاتھ میں لینا قطعاً جائز نہیں ۔

کفایت المفتی میں ہے:

”مسلمان آدمی خواہ کتنا ہی فاسق و فاجر کیوں نہ ہو مسلمان مؤمن تو ہے، پھر اس کے ساتھ بیٹھ کر کھانا نہ کھانے اور برادرانہ تعلقات نہ رکھنے سے اگر اس کی امید ہو کہ یہ اپنے افعال سے باز رہے گا تو ترکِ تعلقات بہتر ہے اور باوجود اس کے اگر کوئی ا س کے ساتھ تعلقات رکھے تو ایسا گناہ نہ ہوگا جیسا کافر کے ساتھ رکھنے کا ہوتا ہے۔“

(کتاب الحظر والإباحۃ: ج: 9، ص: 122، ط: دارالاشاعت)

فتح الباری للعسقلانیؒ میں ہے:

"وقال الطبري : قصة كعب بن مالك أصل هو هجران أهل المعاصي، وقد استشكل كون هجران الفاسق أو المبتدع مشروعا ولا يشرع هجران الكافر وهو أشد جرما منهما لكونهما من أهل التوحيد في الجملة، وأجاب ابن بطال بأن لله أحكاما فيها مصالح للعباد وهو أعلم بشأنها وعليهم التسليم لأمره فيها، فجنح إلى أنه تعبد لا يعقل معناه .

وأجاب غيره بأن الهجران على مرتبتين : الهجران بالقلب، والهجران باللسان . فهجران الكافر بالقلب وبترك التودد والتعاون والتناصر، لا سيما إذا كان حربيا وإنما لم يشرع هجرانه بالكلام لعدم ارتداعه بذلك عن كفره، بخلاف العاصي المسلم فإنه ينزجر بذلك غالبا، ويشترك كل من الكافر والعاصي في مشروعية مكالمته بالدعاء إلى الطاعة، والأمر المعروف والنهي عن المنكر، وإنما المشروع ترك المكالمة بالموادة ونحوها."

(باب ما یجوز من الهجران لمن عصٰی: ج:10، ص:497، ط: دار المعرفة)

فتاوٰی شامی  میں ہے:

"ولا يسلم على الشيخ المازح الكذاب واللاغي؛ ولا على من يسب الناس أو ينظر وجوه الأجنبيات، ولا على الفاسق المعلن، ولا على من يغني أو يطير الحمام ما لم تعرف توبتهم ويسلم على قوم في معصية وعلى من يلعب بالشطرنج ناويا أن يشغلهم عما هم فيه عند أبي حنيفة وكره عندهما تحقيرا لهم."

(کتاب الحظر والإباحة: ج:6، ص:415، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411102546

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں