ایک آدمی کے متعلق عدالتی طور پر یہ ثابت ہوگیا کہ اس نے جان بوجھ کر کسی معاملہ میں جھوٹی گواہی دی ہے، پھر اسی دن وہ شخص دوبارہ کسی معاملہ میں گواہی دیتا ہے، تو کیا اس کی گواہی کا اعتبارہوگا؟
صورتِ مسئولہ میں جب ایک مرتبہ عدالتی طورپر کسی شخص کا جھوٹی گواہی دینا ثابت ہوگیا تو مذکورہ شخص کی عدالت (سچائی اور دیانت داری)جھوٹی گواہی دینے سے ساقط ہوگئی ہے، لہذا ایسے شخص کی گواہی قبول کرنا شرعًا قاضی کے لیے واجب اور ضروری نہیں، تاہم اگر قاضی کو قرائن سے یہ بات معلوم ہوجائے کہ یہ شخص سچ کہہ رہا ہے توقاضی کو اس کی گواہی قبول کرنے کا بھی حق حاصل ہے۔
الجوهرة النيرةمیں ہے:
"(قوله: ولا بد في ذلك كله من العدالة ولفظ الشهادة) هذا إشارة إلى جميع ما تقدم حتى تشترط العدالة .... و إنما شرطت العدالة لقوله تعالى: {ممن ترضون من الشهداء} قال في الذخيرة أحسن ما قيل: في تفسير العدل أن يكون مجتنبا للكبائر ولا يكون مصرا على الصغائر ويكون صلاحه أكثر من فساده وصوابه أكثر من خطئه و قال في الينابيع: العدل من لم يطعن عليه في بطن ولا فرج أي لا يقال: إنه يأكل الربا و المغصوب و أشباه ذلك و لايقال: إنه زان فإن موضع الطعن البطن و الفرج و لهما توابع فإذا سلم عنهما وعن توابعهما كان عدلا والكذب من جملة الطعن في البطن لأنه يخرج منه."
(كتاب الشهادات، ج:2، ص:226، ط: المطبعة الخيرية)
فتح القدیر میں ہے:
"(قوله: و لا بد في ذلك كله من العدالة ... أما اشتراط العدالة فلقوله تعالى: {وأشهدوا ذوي عدل منكم} و قال تعالى:{ممن ترضون من الشهداء}و لأن العدالة هي المعينة لجهة الصدق."
(كتاب الشهادات، ج:7، ص:375، ط: دار الفكر، لبنان)
اللباب في شرح الكتاب میں ہے:
"(و لا من يأتي بابًا من الكبائر التي يتعلق بها الحد) كالزنا و السرقة و نحوهما؛ لأنه يفسق."
(كتاب الشهادات، ج:4، ص:62، ط: المكتبة العلمية، بيروت - لبنان)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144601101165
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن