بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

فرضیت سے پہلے حج کی ادائیگی کا حکم اور حج فرض ہونے کے بعد بِلا عُذرِ شرعی حج میں تاخیر کرنے کا حکم


سوال

بہت سال پہلے میں نے حج کیا تھا، جو مجھے کسی نے کروایا تھا ، اور اس شخص نے مجھے کہا یہ تمہیں تحفہ میں کروا رہا ہُوں، اس سفر میں اپنے لیے حج کی دعا بھی مانگنا۔ اس وقت مجھے کچھ نہیں پتہ تھا تو میں نے نفل عبادت کی نیت سے عمرہ بھی کیا اور حج بھی کیا، اور یہ نیت اور دعاء کی تھی کہ جیسے ہی حج فرض ہوگا تو خود حج کروں گا۔ اب اللہ  پاک نے بہت برکتیں دی ہیں اور میں نے زکوة بھی ادا کی، تو مجھے مسجد کے امام صاحب نے کہا،  اب آپ پر حج فرض ہے،تو کیا مجھ پر حج فرض ہوگا؟اگر مجھ پر حج فرض ہے تو اسی سال حج کرنا ضروری ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل نے مالی استطاعت نہ ہونے کی صورت میں کسی اور کے حج کروانے پر جوحج کیا ہے اس میں چُو ں کہ سائل نے مطلقاً حج کی نیت یا فرض حج کی نیت نہیں کی بلکہ خاص نفل حج کی نیت سے احرام باندھ کر حج کیا تھا، تو اب استطاعت و قدرت ہونے کی وجہ سے سائل پر  حج فرض ہوچُکا ہے۔ نیز حج فرض ہونے کے بعد  لازم ہے کہ  جتنا جلد ممکن ہو  حج ادا کر  لے،  حدیث شریف میں ہے:  حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حج کی ادائیگی میں جلدی کرو ،  کسی کو کیا خبر کہ بعد میں کوئی مرض یا کوئی اور ضرورت لاحق ہو جائے۔حج فرض ہونے کے بعد وقت ملنے پر بھی  بلا عذرِ  شرعی    (کوئی سخت بیماری آجائے یا کسی اسبابی رکاوٹ مثلاً ویزہ یا ٹکٹ نا ملنے یا پھر سرکاری پابندی) کےحج کی ادائیگی میں تاخیر کرنا گناہ ہے،تاہم اگر زندگی  میں ادا کر لیا تو ادا ہو جائے گا اور تاخیر کا گناہ بھی نہ رہے گا، اور اگر زندگی میں ادا نہ کر سکا تو گناہ گار  ہو گا۔ اس كے علاوه كئي احاديثِ مباركہ ميں حج كی ادائيگی ميں جلدی كی ترغيب آئی ہے كه جو شخص حج كا اراده كرے تو اسے چاہیے کہ جلدی کرے۔ لہٰذا حج فرض ہوجانے کہ بعد جلد از جلد حج ادا کرلیا جائے تاخیر کی صورت میں پچھتاوا اور محرومی کا اندیشہ تو ہے ہی لیکن گناہ سے خالی بھی نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"ليفيد أنه يتعين عليه أن لا ينوي نفلا على زعم أنه لا يجب عليه لفقره ۔۔۔ فلو نواه نفلاً لزمه الحج ثانيا".

(كتاب الحج، ج:2، ص:460، ط: سعید)

حدیث شریف میں ہے:

" قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من ‌أراد ‌الحج ‌فليعجل. رواه أبو داود والدارمي". 

(مشكاة المصابيح، کتاب المناسک، الفصل الثانی، ج:2، ص:775، رقم الحدیث:2523-:المكتب الإسلامي - بيروت)

حدیث شریف میں ہے:

"تعجلوا الخروج إلى مكة فإن أحدكم لايدري ما يعرض له من مرض أو حاجة. "الديلمي عن ابن عباس".

(كنز العمال في سنن الأقوال والأفعال، ج:5، ص:16، رقم الحدیث:11851، ط:مؤسسة الرسالة)

حدیث شریف میں ہے:

" ‌من ‌أراد ‌الحج فليتعجل. "حم د1

" ‌من ‌أراد ‌الحج فليتعجل، فإنه قد يمرض المريض، وتضل الضالة وتعرض الحاجة". حم هـ عن الفضل"2

"تعجلوا إلى ‌الحج، فإن أحدكم لا يدري ما يعرض له."حم عن ابن عباس".

(کنز العمال، کتاب الحج والعمرۃ، الفصل الثالث: في آداب الحج ومحظوراته، ج:5، ص24، رقم الاحادیث، 11886، 111887، 11888، ط:مؤسسة الرسالة)

فتاوی شامی میں ہے:

" (على الفور) في العام الأول عند الثاني وأصح الروايتين عن الإمام ومالك وأحمد فيفسق وترد شهادته بتأخيره أي سنينا لأن تأخيره صغيرة وبارتكابه مرة لا يفسق إلا بالإصرار بحر ووجهه أن الفورية ظنية لأن دليل الاحتياط ظني، ولذا أجمعوا أنه لو تراخى كان أداء وإن أثم بموته قبله وقالوا لو لم يحج حتى أتلف ماله وسعه أن يستقرض ويحج ولو غير قادر على وفائه ويرجى أن لا يؤاخذه الله بذلك، أي لو ناويا وفاء إذا قدر كما قيده في الظهيرية.

(قوله: كان أداء) أي ويسقط عنه الإثم اتفاقا كما في البحر قيل: المراد إثم تفويت الحج لا إثم التأخير. قلت: لا يخفى ما فيه بل الظاهر أن الصواب إثم التأخير إذ بعد الأداء لا تفويت وفي الفتح: ويأثم بالتأخير عن أول سني الإمكان فلو حج بعده ارتفع الإثم اهـ وفي القهستاني: فيأثم عند الشيخين بالتأخير إلى غيره بلا عذر إلا إذا أدى ولو في آخر عمره فإنه رافع للإثم بلا خلاف. "

(کتاب الحج، ج:2، ص:455 و456، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411101187

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں