بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

فرضی کہانیاں بیان کرنا


سوال

ایک بہت اہم مسئلہ ہے، وہ یہ کہ ہمارے ہاں سبق آموز کہانیاں بیان کی جاتی ہیں، وہ کہانیاں انٹرنیٹ سے اٹھاتے ہیں اور آگے بیان کرتے ہیں۔ اس میں سچی بھی ہوتی ہیں اور جھوٹی بھی۔ لیکن مقصد اصلاحِ معاشرہ ہوتا ہے؛ کیوں کہ ان کہانیوں میں ایک سبق دیا جاتا ہے۔ اور لوگ بھی اسے بہت پسند کرتےہیں، لیکن میں اس طرح کرتا ہوں کہ کہانی انٹرنیٹ سے ہی اٹھاتا ہوں، لیکن ساتھ میں جس جگہ سے اٹھاتا ہوں اس کا حوالہ دے دیتا ہوں کہ اگر آپ کو اس کے بارے میں معلوم کرنا ہے تو آپ وہاں سے معلوم کر لیں۔ لیکن ان کہانیوں میں سب سوفیصد سچی نہیں ہوتی، لیکن ہم حوالہ نقل کرتے ہیں کہ فلاں بندے نے یہ کہانی نقل کی ہے۔ کیا اس طرح مجھے کوئی  گناہ تو نہیں ہوگا؟ اگر یہ طریقہ غلط ہے تو پھر آپ کوئی صورت بتائیں تاکہ ہم اس گناہ سے بھی بچ سکے اور کہانیاں بھی وہاں سے نقل کرسکیں؟

جواب

واضح رہے کہ  بچوں کی تربیت، ذہن تیز کرنے،  اور ان کی تعلیمی دل چسپی  بڑھانے وغیرہ  کے لیے  انہیں  اخلاقی، اصلاحی اور سبق آموز کہانیاں سنانا/ نقل کرنا جائز ہے، اگرچہ وہ فرضی بنائی ہوئی ہوں، تاہم اگر اسلام کے قابلِ رشک حقیقی کرداروں کے حقیقی واقعات  دل چسپ پیرائے میں بچوں کو سنائے جائیں تو یہ ان کی تربیت کے لیے زیادہ مؤثر اور بہتر ہے۔ بہرحال صورتِ مسئولہ میں  سائل کا سبق آموز  فرضی کہانیاں ان کے حوالہ جات کے ساتھ نقل کرنا درست ہے، بشرطیکہ ان میں کوئی اور شرعی خرابی نہ ہو۔

اور ایسی کہانیاں جس میں اسلامی اقدار کی توہین ہو، یا  وہ کہانیاں شرعًا و اخلاقًا  درست نہ ہوں، ان میں جھوٹ ہو وہ بیان کرنا یا نقل کرنا جائز نہیں ہوگا۔ 

في الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6 / 404):

"وحديث: «حدثوا عن بني إسرائيل» يفيد حل سماع الأعاجيب والغرائب من كل ما لايتيقن كذبه بقصد الفرجة لا الحجة بل وما يتيقن كذبه لكن بقصد ضرب الأمثال والمواعظ وتعليم نحو الشجاعة على ألسنة آدميين أو حيوانات ذكره ابن حجر."

[رد المحتار]:

"(قوله: وحديث: «حدثوا عن بني إسرائيل» ) تمامه " ولا حرج " أخرجه أبو داود وفي لفظ لأحمد بن منيع عن جابر «حدثوا عن بني إسرائيل فإنه كان فيهم أعاجيب» وأخرج النسائي بإسناد صحيح عن أبي سعيد الخدري عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: «حدثوا عن بني إسرائيل ولا حرج وحدثوا عني ولا تكذبوا علي» " فقد فرق عليه الصلاة والسلام بين الحديث عنه والحديث عنهم، كما نقله البيهقي عن الشافعي (قوله: بقصد الفرجة لا الحجة) الفرجة مثلثة التفصي عن الهم والحجة بالضم البرهان قاموس (قوله: لكن بقصد ضرب الأمثال إلخ) وذلك كمقامات الحريري، فإن الظاهر أن الحكايات التي فيها عن الحارث بن همام والسروجي لا أصل لها، وإنما أتى بها على هذا السياق العجيب لما لا يخفى على من يطالعها، وهل يدخل في ذلك مثل قصة عنترة والملك الظاهر وغيرهما، لكن هذا الذي ذكره إنما هو عن أصول الشافعية، وأما عندنا فسيأتي في الفروع عن المجتبى أن القصص المكروه أن يحدث الناس بما ليس له أصل معروف من أحاديث الأولين أو يزيد أو ينقص ليزين به قصصه إلخ فهل يقال عندنا بجوازه إذا قصد به ضرب الأمثال ونحوها يحرر.

(قوله: على ألسنة آدميين أو حيوانات) أي أو جمادات كقولهم قال الحائط للوتد لم تخرقني قال سل من يدقني."

وفي الدر المختار  (6 / 422):

"القصص المكروه أن يحدثهم بما ليس له أصل معروف أو يعظهم بما لا يتعظ به أو يزيد وينقص يعني في أصله، أما للتزين بالعبارات اللطيفة المرققة والشرح لفوائده فذلك حسن."

وفي حاشية ابن عابدين (رد المحتار)تحته:

"(قوله: القصص) بفتحتين مصدر قص (قوله: يعني في أصله) أي بأن يزيد على أصل الكلام أشياء من عنده غير ثابتة أو ينقص ما يخرج المنقول الثابت عن معناه." 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144204200427

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں