بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

فرضی ہبہ کا حکم


سوال

فرضی طور پر بعض کو ہبہ کرنے کا کیا حکم ہے؟

جواب

 کوئی چیز   محض کسی کے نام پر گفٹ کر دینا، یا کسی کے بارے میں دستاویز لکھنا کہ  فلاں چیز فلاں  کو دے دی ہے، / گفٹ کردی ہے، شرعا انتقال ملک کے لیے کافی نہیں ہوتا، بلکہ   چیز گفٹ کرنے کے بعد  اس شخص کے قبضہ و مالکانہ تصرف و اختیار میں دینا شرعا ضروری ہوتا ہے، لہذا صورت مسئولہ میں فرضی گفٹ کرنے سے گفٹ شدہ چیز  مالک کی ملکیت  سے خارج نہیں ہوگی،  اس پر مالک کی ملکیت بدستور  قائم رہے گی۔

درر الحكام في شرح مجلة الأحكاممیں ہے: 

"(المادة ٥٧: لا يتم التبرع إلا بقبض)

لا يتم التبرع إلا بقبض هذه القاعدة مأخوذة من الحديث الشريف القائل «لا تجوز الهبة إلا مقبوضة» على أنه لو كانت الهبة تتم بدون القبض لأصبح الواهب حينئذ مجبرا على أداء شيء ليس بمجبر على أدائه، وذلك مخالف لروح التبرع فالتبرع هو إعطاء الشيء غير الواجب، إعطاؤه إحسانا من المعطي."

(المقالة الثانية في بيان القواعد الكلية الفقهية، ١ / ٥٧، ط: دار الجيل )

مجلة الأحكام العدليةمیں ہے:

"(المادة: ٨٥٠) إذا وهب أحد لابنه الكبير العاقل البالغ شيئا يلزم التسليم والقبض. 

(المادة ٨٥١) يملك الصغير المال الذي وهبه إياه وصيه أو مربيه يعني من هو في حجره وتربيته سواء أكان المال في يده أم كان وديعة عند غيره بمجرد الإيجاب أي بمجرد قول الواهب: وهبت , ولا يحتاج إلى القبض."

( الباب الأول: بيان المسائل المتعلقة بعقد الهبة، الفصل الأول: في بيان المسائل المتعلقة بركن الهبة وقبضها، ١ / ١٦٤، ط: نور محمد، كارخانه تجارتِ كتب، آرام باغ، كراتشي)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144506101881

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں