بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فرض نمازوں کے بعد سرّاً یا جہراً دعا کرانے کا حکم


سوال

ہمارے ہاں اکثر علماء فرض نماز کے بعد" اللّهم أنت السلام ومنك السلام تباركت یاذالجلال والإكرام"  پڑھتے ہیں جہرًا،  جب کہ بعض فرماتے ہیں کہ ایک روایت میں جہرًا ثابت نہیں، بلکہ سرا ثابت ہے، تواس کا کیا حکم ہے؟  دوسرا یہ کہ اگر سرًا ہوتو  لاوڈ سپیکر میں پڑھنے کا کیا حکم ہے؟

جواب

فرض نماز کے بعد دعا کرنا ثابت ہے اور دعا کے آداب میں سے ہے کہ ہاتھ اٹھا کر دعا کی جائے  اور یہ دعا سر اً ہونی چاہیے، البتہ  کبھی کبھار امام  جہراً بھی دعا کراسکتا ہے،لیکن امام کو ہر نماز کے بعد جہراً دعا کرنے پر مجبور کرنا یا مقتدیوں کی جانب سے اس کا مطالبہ کرنا درست نہیں ہے۔

فتاویٰ رحیمیہ میں ہے:

نماز کے بعد جہری دعا کا حکم:

"فرض باجماعت کے بعد دعا آہستہ مانگےیا زور سے، اگر آہستہ کا حکم ہے تو کس قدر، اور زور سے مانگنے کا حکم ہے تو کس قدر، دونوں میں کون سا افضل ہے، حدیث میں نماز کے بعد کس قدر دعائیں مانگنا وارد ہے، لہذا افضل کیا ہے؟ مطلع فرمائیں۔

الجواب: سرّی دعا افضل ہے، نمازیوں کا حرج نہ ہوتا ہو تو کبھی کبھی ذرا آواز سے دعا کرلے تو جائز ہے، ہمیشہ  جہری دعا کی عادت بنانا مکروہ ہے، حدیثوں میں جس طرح دعا کے متعلق روایتیں ہیں کہ آنحضرتﷺ نے یہ دعا پڑھی ایسے ہی یہ بھی ہے کہ آنحضرتﷺ نے رکوع میں " سبحان ربی العظیم"  اور سجدہ میں " سبحان ربی الاعلى" پڑھا، لیکن جس طرح رکوع اور سجدہ کی تسبیحات کی روایتوں سے جہر ثابت نہیں ہوتاتو دعا کی روایتوں سے بھی جہر ثابت نہیں کیا جاسکتا۔"

(کتاب الحظر والاباحۃ، ج:10، ص:198، ط:دارالاشاعت)

أحكام القرآن للجصاص میں ہے:

"وما ذكرنا من الآثار دليل على أن إخفاء الدعاء أفضل من إظهاره؛ لأن الخفية هي السر".

(سورۃ الانعام، باب النهي عن مجالسة الظالمين، ج:3، ص:45، ط:دارالکتب العلمیۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212200856

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں