بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

فرض نماز کی آخری دو یا ایک رکعت میں سورۂ فاتحہ کے ساتھ سورت نہ ملانے کی حکمت


سوال

 فرض نماز کی آخری 2 یا 1 رکعت میں سورۃ فاتحہ کے ساتھ سورۃکیوں نہیں ملاتے؟ حوالے کے ساتھ مدلل جواب مرحمت فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ ابتدا  میں نماز دو رکعت مقرر ہوئی تھی ، اس کے بعد اللہ تعالی نے ان دو رکعتوں کی  تکمیل و اکمال کے لیے ،ظہر،عصر اور عشاء کے فرائض کے ساتھ  دو دو رکعتیں اور مغرب کی نماز میں وتر(طاق عدد) کی حکمت کو باقی رکھنے کے لیے ایک رکعت ملائی،اور  قاعدہ یہ ہے کہ جب کسی چیز کا جبر وکسر مطلوب ہوتا ہے تو اس کےساتھ اس کی نوع کی ایسی چیز ملائی جاتی ہےجو درجہ اور حیثیت کے اعتبار سے اس سے کم ہو،اگر فرائض کی پہلی دو رکعتوں کے ساتھ آخری دو رکعتوں میں بھی سورۂ فاتحہ کے ساتھ سورت ملائی  جاتی تو آخری دونوں رکعتیں بھی درجہ اور حیثیت کے اعتبار سے پہلی دونوں رکعتوں کے برابر ہو جاتیں  ،تو جبر و کسر کی حکمت ضائع ہوجاتی ،اور خود پہلی دو رکعتوں کا جبر وکسر اسی مصلحت سے ہوا کہ بسا اوقات حضورِ قلب ،توجہ یا فہم یا قراءۃ میں یا ارکان میں سے کسی رکن میں نقص و کسر  رہ جاتی ہے؛ اس لیے اس کے عوض میں دوسری رکعتیں ملائی گئیں ۔(احکامِ اسلام :ص:68)

البتہ فرض نماز کی آخری رکعت یعنی تیسری اور چوتھی رکعت  میں سورۂ فاتحہ  کے علاوہ سورت نہ پڑھنا سنت ہے،اگر کسی نے سورۂ فاتحہ کے بعد سورت پڑھ لی تو سنت کے خلاف ہوگا،سنت کے خلاف ہونے سے سجدۂ سہو لازم نہیں آتا ،اس لیے ایسی صورت میں نماز ہو جائے گی،سہو سجدہ کرنے کی ضرورت نہیں ۔

حجۃ اللہ البالغہ میں ہے:

"فأصل الصلاة هو ركعة واحدة، ولم يشرع أقل من ركعتين في عامة الصلاة، وضمت كل واحدة بالأخرى وصارتا شيئا واحدا، قالت عائشة رضي الله عنها:" فرض الله الصلاة حين فرضها ركعتين ركعتين في الحضر والسفر، فأقرت صلاة السفر وزيد في صلاة الحضر " وفي رواية - إلا المغرب فإنها كانت ثلاثا وذلك لأن الزيادة لا ينبغي أن تصل إلى مثل الشيء أو أكثره"۔

(الامور التی لا بد منھا فی الصلاۃ،ج:2،ص:7،ط:کتب خانہ رشیدیہ ،دہلی)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: المختار لا) أي لايكره تحريمًا بل تنزيهًا؛ لأنه خلاف السنة. قال في المنية وشرحها: فإن ضم السورة إلى الفاتحة ساهيا يجب عليه سجدتا السهو في قول أبي يوسف لتأخير الركوع عن محله وفي أظهر الروايات لايجب؛ لأن القراءة فيهما مشروعة من غير تقدير، و الاقتصار على الفاتحة مسنون لا واجب. اهـ."

(کتاب الصلاۃ،واجبات الصلاۃ،ج:1،ص:459،سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله واكتفى المفترض) قيد به لأنه في النفل والواجب تجب الفاتحة والسورة أو نحوها (قوله على الظاهر) أي ظاهر الرواية. وفيه كلام يأتي قريبا (قوله ولو زاد لا بأس) أي لو ضم إليها سورة لا بأس به لأن القراءة في الأخريين مشروعة من غير تقدير والاقتصار على الفاتحة مسنون لا واجب فكان الضم خلاف الأولى وذلك لا ينافي المشروعية"۔

(کتاب الصلاۃ،فصل في بيان تأليف الصلاة إلى انتهائها،ج:1،ص:511،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307200064

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں