بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فرض نماز کے بعد تکبیر کہنے کا ثبوت


سوال

فرض نماز کے بعد تکبیر کہنا کیسا ہے؟ صحیح احادیث کی روشنی میں معہ حوالہ مستند جواب کے خواہش مند ہیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں نماز کے بعد  بقدرِ بلند آواز سے ’’تکبیر‘‘ کہنا رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، جیسے کہ صحیح مسلم میں بروایت حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ مروی ہے:

"عن ابن عباس، قال: «كنا نعرف انقضاء صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم بالتكبير»".

(کتاب المساجد،باب الذكر بعد الصلوة، رقم الحدیث:120،  ج،1، ص:410، ط:دارإحياء التراث العربى)

ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ہمیں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ختم ہونے کا علم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تکبیر کہنے سے ہوتا تھا۔

تاہم جمہور فقہاء و محدثین کے نزدیک فرض نماز کے بعد صرف " اللہ اکبر" کہنا ہی مسنون نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد نماز کے بعد مطلق ذکر کرنا ہے، جس میں تکبیر، تسبیح، تحمید و دیگر تمام اَذکار شامل ہیں۔

امداد الاحکام میں ہے:

"سوال: آج کل بعض واعظین مسلمانوں کو یہ تعلیم دیتے پھرتے ہیں کہ پانچوں نمازوں کے بعد سب نمازیوں کو بآوازبلند تین مرتبہ اللہ اکبرکانعرہ لگانا چاہیے، اور جب ان سے یہ کہاجاتا ہے کہ یہ بدعت ہے تو وہ اس کا یہ جواب دیتے ہیں کہ خدا کانام لینا اور تکبیر کہنا بھی کہیں بدعت ہوسکتا ہے، اور استدلال میں تکبیرات تشریق اور تکبیر جہاد کو پیش کرتے ہیں، امید ہے کہ اس سوال کا جواب مع حوالہ وسنت وکتاب دیاجائے گا، بینوابالامرالصواب ولکم عنداللہ جزیل الثواب۔

الجواب: واللّٰہ الموفق الصواب؛ اس قسم کا سوال حضرت علامہ مولانا ابوالحسنات عبدالحی لکھنوی نوراللہ مرقدہ کی خدمت میں بھی پیش ہوا تھا جس کا مفصل جواب مولانا مرحوم کے فتاویٰ میں منقول ہے، مختصراً کچھ یہاں بھی ذکر کیاجاتا ہے، نیز درمدخل بمقام دیگرنوشتہ؛ ولیحذرواجمیعا من الجھر بالذکر والدعاء عندالفراغ من الصلوٰۃ ان کان فی جماعۃ فانہ ذلک من البدع، انتھی وعلامہ بدرالدین العینی الحنفی دربنا یہ شرح ھدایہ می نویسند ، قال ابوبکرالرازی قال مشایخنا التکبیر جھراً فی غیرایام التشریق والاضحیٰ لایسن الابازاء العدوواللصوص وقیل وکذا فی الحریق والمخارف کلھا انتھی، وفی نصاب الاحتساب اذا کبرواعلی اثرالصلوٰہ جھراً یکرہ وانہ بدعۃ یعنی سوی الایام النحروالتشریق انتھی، وایں قسم عبارت حنفیہ بسیاراندکی ازاں کراہت ذکری جہری بجز چندمواضع مستثناہ ثابت می شود تفصیل آں دررسالہ ام سباحۃ الفکر فی الجہربالذکر موجوداست، الحاصل ذخر جہری بعدنماز سوائے مرایام تشریق وغیرہ اگراحیاناً باشد مضائقہ نیست بشرطیکہ جہزمفرط نباشد، وہمچنیں اگرمقصودازجہرتعلیم باشدوبدون ایں اغراض التزام  واہتمام آں کردن چنانکہ درسوال مذکور است خلاف طریق نبویہ ا وطریق سلف صالح است، واللہ اعلم اھ (ج:4، ص:233، مع الخلاصہ)

بعض لوگوں نے نماز کے بعدبلند آواز سے ذکر کرنے پر عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت سے استدلال کیا ہے جس کو بخاری نے ان الفاظ سے روایت کیا ہے، ان رفع الصوت بالذکر حین ینصرف الناس من المکتوبۃ کان علیٰ عھد رسول اللہ ا وقال ابن عباس کنت اعلم اذا انصر فوابذلک اذاسمعتہ اھ (ص ۲۶۹ ج ۲) فتح الباری) نماز فرض سے فراغت کے بعد بلند آواز سے ذکرکرنا رسول اللہ  کے زمانہ میں تھا، ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ جب میں ذکر کی آواز سنتا تھا اس وقت نماز کاختم ہونا مجھے معلوم ہوجاتا تھا، فتح الباری میں اس کی شرح کرتے ہوئے لکھا ہے؛ وقال النووی حمل الشافعی ھٰذا الحدیث علیٰ انھم جھروابہ وقتاً یسیرا لاجل تعلیم صفۃ الذکر لانھم داومواعلیٰ الجھربہ والمختار ان الامام والماموم یخفیان الذکر الاان احتیج الی التعلیم اھ ( ص۲۶۹ج ۲) یعنی امام شافعی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو اس پرمحمول کیا ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے ایک دوسرے کے ذکر کے الفاظ اور طریقہ سکھلانے کے واسطے کچھ دن جہرکیاہے، ہمیشہ انہوں نے جہر نہیں کیا، اور مختاریہی ہے کہ امام اور مقتدی آہستہ ذکر کریں، البتہ اگر تعلیم کی ضرورت ہو تو مضائقہ نہیں، اھ

علامہ عینی ؒ عمدۃ القاری میں اس کی تائید کرتے ہوئے لکھتے ہیں وقال ابن بطال وقول ابن عباس کان علی عھد النبی ا فیہ دلالۃ علی انہ لم یکن یفعل حین حدث بہ لانہ لوکان یفعل لم یکن لقولہ معنی فکان التکبیر فی اثرالصلوات لم یواظب الرسول علیہ الصلوٰۃ والسلام (علیہ ) طول حیاتہ وفھم اصحابہ ان ذلک لیس بلازم فترکوہ خشیۃ ان یظن انہ ممالاتتم الصلوٰۃ الابہ فلذلک کرھہ من کرھہ من الفقھاء اھ ( ص۱۹۴ ج۱ ) ’’ یعنی ابطالؒ فرماتے ہیں کہ ان عباس رضی اللہ عنہ کا یہ فرمانا کہ حضور ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایسا ہوتا تھا اس بات کو بتلارہاہے کہ جس وقت ابن عباسؓ یہ حدیث بیان کررہے ہیں اس وقت ایسا نہیں کیاجاتا تھا، ورنہ پھر اس قید کے کچھ معنی نہ ہوں گے، (تو اس سے امام شافعیؒ کے قول کی تائید ہوتی ہے کہ یہ جہر بالذکر لوگوں کی تعلیم کے لیے تھا، جب لوگوں نے دعاء اور ذکر کے الفاظ یاد کرلیے، پھر یہ جہر بھی متروک ہوگیا۱۲) حاصل یہ ہے کہ نمازوں کے بعد تکبیر بالجہر پرحضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مداومت نہیں کی، اور صحابہؓ اس بات کو جانتے تھے کہ یہ جہر لازم تو ہے نہیں، تو انہوں نے اس اندیشہ کی وجہ سے اس کو ترک کردیا کہ کوئی اس کو لازم نہ سمجھنے لگے اور یہ خیال نہ کرنے لگے کہ نماز اس کے بدون کامل ہی نہ ہوگی، اور اس اندیشہ کی وجہ سے فقہاء نے اس کو مکروہ سمجھا ہے ، جس نے بھی مکروہ سمجھا ہے اھ (کیونکہ مباح کے التزام واہتمام سے ہمیشہ ایسے مفاسد مرتب ہونے لگتے ہیں کما ہومشاہد۔"

(فرض نمازوں کے بعدبآوازبلند تکبیر کہنے کا حکم اور اس کی تحقیق، ج:1، ص:322، ط:دارالاشاعت)

فتح الباري شرح صحیح البخاری لابن حجر العسقلانی میں ہے:

"(قوله:كنت أعرف انقضاء صلاة النبي صلى الله عليه وسلم بالتكبير) وقع في رواية الحميدي عن سفيان بصيغة الحصر، ولفظه: "ما كنا نعرف انقضاء صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم إلا بالتكبير". وكذا أخرجه مسلم عن ابن أبي عمر عن سفيان، واختلف في كون ابن عباس قال ذلك، فقال عياض: الظاهر أنه لم يكن يحضر الجماعة؛ لأنه كان صغيراً ممن لايواظب على ذلك ولايلزم به، فكان يعرف انقضاء الصلاة بما ذكر. وقال غيره: يحتمل أن يكون حاضراً في أواخر الصفوف فكان لايعرف انقضاءها بالتسليم، وإنما كان يعرفه بالتكبير. وقال ابن دقيق العيد: يؤخذ منه أنه لم يكن هناك مبلغ جهير الصوت يسمع من بعد. (قوله:بالتكبير) هو أخص من رواية ابن جريج التي قبلها، لأن الذكر أعم من التكبير، ويحتمل أن تكون هذه مفسرةً لذلك، فكان المراد أن رفع الصوت بالذكر أي بالتكبير، وكأنهم كانوا يبدءون بالتكبير بعد الصلاة قبل التسبيح والتحميد".

(ابواب صفة الصلاة، باب الذكر بعد الصلاة، ج:2، ص:379، ط:دارالكتب العلمية)

عمدة القاي شرح صحيح البخاري لبدر الدين العيني میں ہے:

"قَوْله: (قَالَ ابْن عَبَّاس) هُوَ مَوْصُول بِالْإِسْنَادِ الأول كَمَا فِي رِوَايَة مُسلم عَن إِسْحَاق بن مَنْصُور عَن عبد الرَّزَّاق بِهِ، قَوْله: (كنت أعلم) فِيهِ إِطْلَاق الْعلم على الْأَمر الْمُسْتَند إِلَى الظَّن الْغَالِب. قَوْله: (بذلك) أَي: بِرَفْع الصَّوْت إِذا سمعته، أَي: الذّكر، وَالْمعْنَى: كنت أعلم انصرافهم بِسَمَاع الذّكر. ذكر مَا يُسْتَفَاد مِنْهُ: اسْتدلَّ بِهِ بعض السّلف على اسْتِحْبَاب رفع الصَّوْت بِالتَّكْبِيرِ وَالذكر عقيب الْمَكْتُوبَة، وَمِمَّنْ استحبه من الْمُتَأَخِّرين: ابْن حزم، وَقَالَ ابْن بطال: أَصْحَاب الْمذَاهب المتبعة وَغَيرهم متفقون على عدم اسْتِحْبَاب رفع الصَّوْت بِالتَّكْبِيرِ وَالذكر، حاشا ابْن حزم، وَحمل الشَّافِعِي هَذَا الحَدِيث على أَنه جهر ليعلمهم صفة الذّكر، لَا أَنه كَانَ دَائِماً. قَالَ: وَاخْتَارَ للْإِمَام وَالْمَأْمُوم أَن يذكر الله بعد الْفَرَاغ من الصَّلَاة، ويخفيان ذَلِك، إلاّ أَن يقْصد التَّعْلِيم فيعلما ثمَّ يسرا. وَقَالَ الطَّبَرِيّ: فِيهِ الْبَيَان على صِحَة فعل من كَانَ يفعل ذَلِك من الْأُمَرَاء والولاة، يكبر بعد صلَاته وَيكبر من خَلفه، وَقَالَ غَيره: لم أجد أحداً من الْفُقَهَاء قَالَ بِهَذَا إِلَّا ابْن حبيب فِي (الْوَاضِحَة): كَانُوا يستحبون التَّكْبِير فِي العساكر والبعوث إِثْر صَلَاة الصُّبْح وَالْعشَاء، وروى ابْن الْقَاسِم عَن مَالك أَنه مُحدث، وَعَن عُبَيْدَة، وَهُوَ بِدعَة. وَقَالَ ابْن بطال: وَقَول ابْن عَبَّاس: كَانَ على عهد النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم، فِيهِ دلَالَة أَنه لم يكن يفعل حِين حدث بِهِ، لِأَنَّهُ لَو كَانَ يفعل لم يكن لقَوْله معنى، فَكَانَ التَّكْبِير فِي إِثْر الصَّلَوَات لم يواظب الرَّسُول صلى الله عَلَيْهِ وَسلم عَلَيْهِ طول حَيَاته، وَفهم أَصْحَابه أَن ذَلِك لَيْسَ بِلَازِم فَتَرَكُوهُ خشيَة أَن يظنّ أَنه مِمَّا لَاتتمّ الصَّلَاة إلاّ بِهِ، فَذَلِك كرهه من كرهه من الْفُقَهَاء. وَفِيه: دلَالَة أَن ابْن عَبَّاس كَانَ يُصَلِّي فِي أخريات الصُّفُوف لكَونه صَغِيراً. قلت: قَوْله: (إِذا انصرفوا) ظَاهره أَنه لم يكن يحضر الصَّلَاة بِالْجَمَاعَة فِي بعض الْأَوْقَات لصغره".

(بابُ التَّسْلِيمِ، ج:6، ص126/152، ط:دارالكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308100741

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں