بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فرض نماز کے بعد اجتماعی دعا کا حکم


سوال

میں  ایک طالب علم ہے۔اس وجہ محلہ کی مسجد کے امام صاحب کبھی کبھی مجھے بھی نماز پڑھانے کا کہہ دیتے ہیں ۔لیکن ایک بات پر ذہن کو بہت تشویش ہوتی ہے اور دل پر بار ہوتا ہے ۔وہ یہ کہ جب نماز (خصوصاً فجر اور عصر کی نماز)سے فارغ ہوتا ہوں کچھ دیر مسنون تسبیحات کرتا ہوں ۔اس کے بعد جب دعا(سرا) کے لیے ہاتھ اٹھاتا ہوں تو مقتدی بھی دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتے ہیں۔اب جب تک میں دعا میں مشغول ہوں تو مقتدی بھی ہاتھ اٹھائے ہوئے ہیں۔جب میں دعا سے فارغ ہوتا ہوں تو وہ بھی ساتھ ہی فراغ ہوتے ہیں ۔اس بات سے بندہ اپنی چاہت کے مطابق دعا لمبی نہیں مانگ سکتا کیونکہ مقتدی بھی دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ کب میں دعا ختم کروں۔ دوسری سورت اس کے برعکس ہےکہ اگر ہم مقتدی ہوں تو بس امام صاحب کو دیکھتے رہتے ہیں کہ کب وہ آمین کہیں تو ہم بھی فارغ ہوں۔ اس تفصیل کے بعد عرض ہیکہ برائے کرم سنت طریقہ کیا ہے امام کے لیے وہ نماز کے بعد دعا کیسے کرے؟اسی طرح مقتدی کے لیے سنت طریقہ کیا ہے نماز کے بعد دعا کا ؟ جہرًا اجتماعی دعا کو معمول بنا لینا کیسا ہے؟ بعض آئمہ حضرات جہرا اجتماعی دعا تو نہیں کرتے لیکن آخر میں دعا ختم کرنے کے لیے آمین بلند آواز میں کہتے ہیں اور مقتدی امام صاحب کی آمین کی آواز کا ہی انتظار کر رہے ہوتے ہیں تو کیا یہ بھی ایک اجتماعی دعا کی صورت ہے ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں فرض نماز کے بعد دعا کرنانبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اورسلف صالحین سے ثابت ہے اور  فرض نمازوں کے بعد دعا کا مقبول ہونا بھی مختلف احادیث میں وارد ہے جس کا تقاضہ ہے کہ ہرفرض نماز پڑھنے والا اپنی نماز کے بعد دعا کرے چاہے امام ہو یامقتدی یامنفرد، اب اگر جماعت سے نماز ادا کی جارہی ہوگی تو ہرایک کے انفراداً دعا کرنے سے ایک اجتماعی ہیئت معلوم ہوگی، لہذا ہاتھ اٹھاکراجتماعی دعا کرنا ثابت ہے، اس لیے نماز کے بعد دعاپر نکیر کرنا یا اسے بدعت کہنا درست نہیں، نیزاسے سنتِ مستمرہ دائمہ کہنا اور اس بنا پراس کو ضروری اورلازم سمجھ کرکرنا، اور نہ کرنے والوں پرطعن وتشنیع کرنا یہ بھی درست نہیں، لہذا مقتدی  دعا میں شریک ہونے اور اس کو مکمل کرنے کا پابند نہیں،  بلکہ اس کو اختیار ہے کہ چاہے تو فرض نماز کے بعد امام کے ساتھ دعا پوری کرے، چاہے تو امام کی دعا سے پہلے اپنی دعا ختم کرے، اورچاہے تو امام کی دعا کے بعد بھی دعا مانگے، البتہ دعا کے آداب میں سے ہے کہ ہاتھ اٹھا کر دعا کی جائے  اور آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی  دعا میں ہاتھ اٹھانا ثابت ہے۔ اور یہ دعا سر اً افضل ہے، البتہ تعلیم کی غرض سے  کبھی کبھار امام  جہراً بھی دعا کرا سکتا ہے۔

 "کنزالعمال" میں ہے:

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جوبندہ نمازکے بعد ہاتھ اٹھاکراللہ تعالیٰ سے دعاکرتاہے اورکہتاہے کہ اے میرے معبود .... اللہ تعالیٰ اس کی دعا کوضرورقبول فرماتے ہیں، اسے خالی ہاتھ واپس نہیں لوٹاتے۔

دعا میں  ہاتھ اٹھانا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادتِ شریفہ تھی، حضرت سائب رضی اللہ عنہ اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب دعا فرماتے تھے تو اپنے دونوں  ہاتھ مبارک اٹھاتے اور فارغ ہوتے تو ان دونوں  کو اپنے چہرے پر پھیرتے۔

حضرت علامہ محمدانورشاہ کشمیری رحمہ اللہ نے "فیض الباری" میں اور محدث العصر حضرت مولانا محمد یوسف بنوری نوراللہ مرقدہ نے اپنے فتاویٰ میں لکھاہے کہ فرائض کے بعد موجودہ ہیئت کے مطابق اجتماعی دعا کرنا سنتِ مستمرہ تو نہیں ہے، لیکن اس کی اصل ثابت ہے؛ اس لیے یہ بدعت  نہیں ہے، اسے بدعت کہنا غلو ہے۔

مراقي الفلاح بإمداد الفتاح شرح نور الإيضاح ونجاة الأرواح   میں ہے:

"( ثم يدعو لامام لنفسه وللمسلمين ) بالأدعية المأثورة الجامعة لقول أبي أمامة قيل يا رسول الله أي الدعاء أسمع قال " جوف الليل الأخير ودبر الصلوات المكتوبات ولقوله صلى الله عليه و سلم " والله إني لأحبك أوصيك يا معاذ لا تدعن دبر كل صلاة أن تقول اللهم أعني على ذكرك وشكرك وحسن عبادتك " ( رافعي أيديهم ) حذاء الصدر وبطونها مما يلي الوجه بخشوع وسكون،ثم يمسحون بها وجوههم فى آخره اي:عند الفراغ."

(باب صفة الصلوة، ص:316، ط:مكتبه رشيديه)

العرف الشذي شرح سنن الترمذي  میں ہے:

"وليعلم أن الدعاء المعمول في زماننا من الدعاء بعد الفريضة رافعين أيديهم على الهيأة الكذائية لم تكن المواظبة عليه في عهده عليه الصلاة والسلام."

(باب ماجاء فى كراهية ان يخص الامام نفسه فى الدعاء، ج:1، ص:346، ط:دار إحياء التراث العربى)

مزید دلائل کے لیے ”النفائس المرغوبة في الدعاء بعد المکتوبة “ مؤلفہ حضرت مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ صاحب رحمہ اللہ کا مطالعہ فرمائیں۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144410100556

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں