اگر کسی سے جماعت میں شامل ہونے سے اس کی فرض سے پہلے والی سنتیں رہ جائیں تو کیا وہ جماعت کے فورًا بعد پہلے چھوٹی ہوئی سنتیں ادا کرے، یا پہلے باقی نماز (دیگر سنتیں)پڑھے اور چھوٹی ہوئی سنتیں آخر میں ادا کرے؟
صورتِ مسئولہ میں اگر کسی سے جماعت میں شامل ہونے کی وجہ سے فرض سے پہلے والی سنتِ مؤکدہ رہ جائیں تو وہ فرض نماز کے بعد پہلے باقی نماز(دیگر سنتیں) ادا کرے، پھر چھوٹی ہوئی سنتیں ادا کرے، یہ زیادہ بہتر ہے۔
ملحوظ رہے کہ یہ حکم صرف ظہر کی نماز کے لیے ہے، عصر اور عشاء سے پہلے سنت غیر مؤکدہ ہیں، لہٰذا انہیں فرض کے بعد نہیں پڑھا جائے گا، اور مغرب سے پہلے سنتیں ہی نہیں ہیں، اور فجر کی سنت پڑھے بغیر اگر جماعت میں شامل ہوجائے تو اشراق کا وقت ہونے کے بعد زوال سے پہلے پہلے ادا کی جائیں گی۔
الدر مع الرد میں ہے:
"(بخلاف سنة الظهر) وكذا الجمعة (فإنه) إن خاف فوت ركعة (يتركها) ويقتدي (ثم يأتي بها) على أنها سنة (في وقته) أي الظهر (قبل شفعه) عند محمد وبه يفتى جوهرة(قوله عند محمد) وعند أبي يوسف بعده، كذا في الجامع الصغير الحسامي، وفي المنظومة وشرحها: الخلاف على العكس. وفي غاية البيان: يحتمل أن يكون عن كل من الإمامين روايتان ح عن البحر.(قوله وبه يفتى) أقول: وعليه المتون، لكن رجح في الفتح تقديم الركعتين. قال في الإمداد: وفي فتاوى العتابي أنه المختار، وفي مبسوط شيخ الإسلام أنه الأصح لحديث عائشة «أنه - عليه الصلاة والسلام - كان إذا فاتته الأربع قبل الظهر يصليهن بعد الركعتين» وهو قول أبي حنيفة، وكذا في جامع قاضي خان اهـ والحديث قال الترمذي حسن غريب فتح."
(كتاب الصلاة، باب إدراك الفريضة، ج:2، ص:59، ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144407102040
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن