بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فرض نمازوں کے بعد نفل


سوال

 فرض نمازوں کے بعد جو نوافل ادا کیے جاتے ہیں ان کا آغاز کب ہوا؟ مطلب ان نوافل کو سب سے پہلے کسی نے پڑھا اور یہ کس کی طرف منسوب ہیں؟

جواب

واضح رہے کہ بعض فرض نمازوں کے ساتھ سنتِ مؤکدہ اور بعض میں سنتِ مؤکدہ کے ساتھ نوافل بھی ادا کیے جاتے ہیں، یہ نوافل احادیث میں مذکور ہونے کی وجہ سے بطورِ نفل ان نمازوں کا حصہ ہیں ،ام المومنین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے انہوں نے آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا آپ نے فرمایا :جو مسلمان  بندہ اللہ تعالی کی خوشنودی کے لیے ہر دن بارہ رکعات فرض سے زائد (سنن رواتب )پڑھے تو اللہ اس کے لیے جنت میں گھر بنائے گا اور وہ بارہ رکعات یہ ہیں :دو رکعت فجر کی نماز  سے پہلے ،چار رکعات ظہر  کی نماز سے پہلے اور دو رکعت ظہر  کی نماز کے بعد ،دو رکعت مغرب کی نماز کے بعد اور دو رکعت عشاء کی نماز کے بعد ،اور  ان کو سنن مؤکدہ کہا جاتا ہےجن کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی پابندی فرمائی اور اس کی تاکید کی ہے  ۔

اس کے علاوہ اور  نفل نمازیں ہیں جو احادیث  مبارکہ سے ثابت ہیں : ظہر کی نماز کے دو سنتوں کے بعد دو رکعت  ،اور عصر کی نماز سے پہلے چار رکعت  اور مغرب کی سنتوں کے بعد چھ رکعات ،عشاء کی نماز سے پہلے چار رکعات  اور بعد میں چار رکعت اور وتر کے بعد دو رکعت نفل  صحیح احادیث سے ثابت ہیں ۔

حدیث میں ہے :

"عن أم حبيبة زوج النبي صلى الله عليه وسلم؛ أنها قالت:سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: "‌ما ‌من ‌عبد مسلم يصلي لله كل يوم ثنتي عشرة ركعة تطوعا، غير فريضة، إلا بنى الله له بيتا في الجنة".

(صحیح مسلم ،باب فصل سنن الراتب قبل الفرائض ،ج:1،ص:503،داراحیاء التراث العربی)

فتاوی شامی میں ہے :

'' (ويستحب أربع قبل العصر، وقبل العشاء وبعدها بتسليمة) وإن شاء ركعتين، وكذا بعد الظهر ؛ لحديث الترمذي: «من حافظ على أربع قبل الظهر وأربع بعدها حرمه الله على النار»۔ (وست بعد المغرب)؛ ليكتب من الأوابين (بتسليمة) أو ثنتين أو ثلاث۔

 (قوله: وإن شاء ركعتين) كذا عبر في منية المصلي. وفي الإمداد عن الاختيار: يستحب أن يصلي قبل العشاء أربعاً، وقيل: ركعتين، وبعدها أربعاً، وقيل: ركعتين اهـ. والظاهر أن الركعتين المذكورتين غير المؤكدتين.''

(کتاب الصلاۃ،باب الوتر والنوافل،ج:2،ص:13،سعید)

اور اگر سوال کا مقصد کچھ اور ہے تو اس کی وضاحت فرماکر سوال دوبارہ ارسال فرمائیں ۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403101594

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں