بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

فرض نماز کی اخری رکعت میں کوئی دعا پڑھ سکتےہیں؟


سوال

فرض نماز کی  آخری رکعت میں کوئی دعا پڑھ سکتےہیں؟جیسے "ربنا ھب لنا من ازواجنا "والی آیت!

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر آخری رکعت سے مراد آخری قعدہ میں درود شریف کے بعد  دعائیں پڑھنا ہو،تو اس کے بارے میں حکم یہ ہےکہ قعدہ اخیرہ میں درود شریف کے بعد تمام نمازوں (فرض، سنت غیرہ) میں قرآن و حدیث میں منقول دعائیں  پڑھنا مسنون ہے۔

البتہ  امام کے لیے  نبی کریمﷺ  کی ہدایت یہ ہے کہ امام ہلکی پھلکی  نماز پڑھائے،  کیوں کہ جماعت کی نماز میں مریض اور بوڑھے بھی ہوتے ہیں، اس لیے ان کا لحاظ کرنا   چاہیے ، تاکہ مقتدیوں کو  زحمت ، مشقت اور تکلیف نہ ہو۔

نماز میں ماثور دعا پڑھنے کے علاوہ کوئی  دعا پڑھنے کے بارے میں تفصیل یہ ہے کہ :

 نمازفرض ہو یا نفل،ان   میں ماثور دعاؤں  کا پڑھنا زیادہ بہتر اور باعث برکت ہےاگر کوئی ماثور دعاؤں کے علاوہ کوئی اور دعا مانگنا چاہتا ہو تو اس  کی بھی گنجائش ہے لیکن  شرط یہ ہے کہ ایک تو وہ دعا عربی زبان میں مانگی جائے اور دوسری شرط یہ ہے کہ دعا میں  ایسی چیز  مانگی جائے جو چیز مخلوق سے نہ مانگی جاسکتی ہو، مثلاً  توفیق ملنے کی دعا، قبولیت  کی دعا، حج یا عمرہ کی دعا، یا غم وحزن  کی دوری کی دعا کرسکتے ہی، لیکن دعا میں روٹی مانگنا یا پیسے مانگنا  جوچیزیں بندوں سے عموماً مانگی جاتی ہیں یہ نماز میں جائز نہیں ہے۔

البحرالرائق میں ہے :

"(قوله: ودعا بما يشبه ألفاظ القرآن والسنة لا كلام الناس) أي بالدعاء الموجود في القرآن، ولم يردحقيقة المشابهة ؛ إذ القرآن معجز لا يشابهه شيء، ولكن أطلقها ؛ لإرادته نفس الدعاء ، لا قراء ة القرآن، مثل: ﴿رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا﴾ [البقرة: 286] ﴿رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبِنَا﴾ [آل عمران: 8] ﴿رَبِّ اغْفِرْ لِيْ وَلِوَالِدَيَّ﴾ [نوح: 28] ﴿رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً﴾ [البقرة: 201] إلى آخر كل من الآيات، وقوله: والسنة، يجوز نصبه عطفاً على ألفاظ أي دعا بما يشبه ألفاظ السنة، وهي الأدعية المأثورة، و من أحسنها ما في صحيح مسلم:«اللهم إني أعوذ بك من عذاب جهنم ومن عذاب القبر ومن فتنة المحيا والممات ومن فتنة المسيح الدجال»، ويجوز جره عطفاً على القرآن أو ما أي دعا بما يشبه ألفاظ السنة أو دعا بالسنة، وقد تقدم أن الدعاء آخرها سنة ؛ لحديث ابن مسعود: «ثم ليتخير أحدكم من الدعاء أعجبه إليه فيدعو به»."

 (كتاب الصلاة، باب صفة الصلاة، ج:1، ص:349،  ط: دار الكتاب الإسلامي)

فتاوی شامی میں ہے :

"(ودعا) بالعربية، وحرم بغيرها نهر لنفسه وأبويه وأستاذه المؤمنين ... (بالأدعية المذكورة في القرآن والسنة. لا بما يشبه كلام الناس) اضطرب فيه كلامهم ولا سيما المصنف؛ والمختار كما قاله الحلبي أن ما هو في القرآن أو في الحديث لايفسد،  وما ليس في أحدهما إن استحال طلبه من الخلق لايفسد وإلا يفسد لو قبل قدر التشهد، وإلا تتم به ما لم يتذكر سجدة فلاتفسد بسؤال المغفرة مطلقًا ولو لعمي أو لعمرو، وكذا الرزق ما لم يقيده بمال ونحوه لاستعماله في العباد مجازًا".

(کتاب الصلاۃ،باب صفۃ الصلاۃ،ج:1،  ص: 521، ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"يكره تحريماً (تطويل الصلاة) على القوم زائداً على قدر السنة في قراءة وأذكار رضي القوم أو لا؛ لإطلاق الأمر بالتخفيف، نهر. وفي الشرنبلالية: ظاهر حديث معاذ أنه لا يزيد على صلاة أضعفهم مطلقاً".

 ( کتاب الصلاۃ،  باب الامامۃ،   ج:1، ص: 564، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144505100240

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں