بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فرض نماز کی دو ہی رکعت میں  ضم سورت کیوں ہے؟


سوال

فرض نماز کی دو ہی رکعت میں  ضمِ سورت کیوں ہے؟

جواب

 واضح  رہے کہ نماز میں قراءت کی فرضیت کا محل صرف  دو رکعتیں ہی ہیں، یعنی چار رکعات والی فرض نمازوں میں فرضیت صرف دو رکعتوں میں قراءت کرنے سے پوری ہو جاتی ہے، باقی دو رکعتوں میں قراءت کرنا فرض نہیں، اسی پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع ہے، چنانچہ حضرت علی اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھے کہ نمازی کو اختیار ہے کہ آخری دو رکعتوں میں خواہ قراءت کرے، خواہ خاموش کھڑا رہے، خواہ تسبیح پڑھے۔ اور یہ مسئلہ چوں کہ اجتہاد سے نہیں سمجھا جا سکتا؛ اس لیے ان حضرات کا قول گویا خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہمارے لیے کافی و شافی ہونا چاہیے۔

نیز حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اصل نماز دو دو رکعات ہی تھی، بعد میں سفر کی نماز کو اصل پر باقی رکھا گیا اور حضر کی نماز کو بڑھا دیا گیا، اس وجہ سے بھی اصل اور بڑھائی ہوئی نماز میں قراءت کے فرض ہونے اور نہ ہونے کے اعتبار سے فرق رکھا گیا ہے کہ جو اصل نماز تھی اس میں قراءت فرض رکھی گئی اور جو نماز بعد میں اضافہ شدہ ہے، اس میں قراءت فرض نہیں رکھی گئی۔

لہذا معلوم ہوا کہ چار رکعات والی فرض نمازوں میں صرف پہلی دو رکعتوں میں ہی قراءت کرنا فرض ہے، باقی دو رکعتوں میں قراءت کرنا فرض نہیں ہے اور یہ حکم ہمیں صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے آثار سے معلوم ہوا ہے، جو عبادات کی مقادیر کے بارے میں حدیثِ مرفوع کے حکم میں ہیں۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (1/ 111):

"(وأما) بيان محل القراءة المفروضة فمحلها الركعتان الأوليان عينًا في الصلاة الرباعية هو الصحيح من مذهب أصحابنا. .....  (ولنا) إجماع الصحابة - رضي الله عنهم -، فإن عمر - رضي الله عنه - ترك القراءة في المغرب في إحدى الأوليين فقضاها في الركعة الأخيرة وجهر، وعثمان - رضي الله عنه - ترك القراءة في الأوليين من صلاة العشاء فقضاها في الأخريين وجهر، وعلي و ابن مسعود - رضي الله عنهما - كانا يقولان: المصلي بالخيار في الأخريين، إن شاء قرأ وإن شاء سكت وإن شاء سبح، وسأل رجل عائشة - رضي الله عنها - عن قراءة الفاتحة في الأخريين فقالت: ليكن على وجه الثناء ولم يرو عن غيرهم خلاف ذلك، فيكون ذلك إجماعًا؛ ولأن القراءة في الأخريين ذكر يخافت بها على كل حال فلاتكون فرضًا، كثناء الافتتاح ...... قالت عائشة - رضي الله عنها -: الصلاة في الأصل ركعتان، زيدت في الحضر وأقرت في السفر، والزيادة على الشيء لا يقتضي أن يكون مثله، ولهذا اختلف الشفعان في وصف القراءة من حيث الجهر والإخفاء، وفي قدرها وهو قراءة السورة .......  وهذا باب لا يدرك بالقياس فالمروي عنهما كالمروي عن النبي صلى الله عليه وسلم."

الفتاوى الهندية (1/ 71):

"وتجب قراءة الفاتحة وضم السورة أو ما يقوم مقامها من ثلاث آيات قصار أو آية طويلة في الأوليين بعد الفاتحة، كذا في النهر الفائق. وفي جميع ركعات النفل والوتر، هكذا في البحر الرائق."

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144107200701

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں