بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فرض نمار کے بعد سنتیں نہ پڑھنے سے فرض نماز ادا ہوجاتی ہے


سوال

فرض نماز کے بعد اگر کوئی شخص   سنتیں  نہ پڑھے تو  کیا نماز ہوجاتی  ہے؟

جواب

فرض نماز کے بعد اگر سنتیں نہ پڑھی جائیں تو فرض نماز تو ادا ہوجاتی ہے،لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ  واجب(وتر) اور سنتوں کو پڑھنا ہی نہیں چاہیے کیوں کہ وتر کی نماز بھی واجب ہے اور اگر کسی وجہ سےوتر  رہ جائیں تو فرض نماز کی طرح ان کی قضاء بھی لازم ہے،اسی طرح سنتِ مؤکدہ کااہتمام کرنا بھی واجب کے قریب ہے، بلاکسی عذر کے سنتِ مؤکدہ کو ترک کرنا جائز نہیں ہے،  جوشخص بلاکسی عذر کے سنتِ مؤکدہ ترک کرتاہے وہ گناہ گار اور لائقِ ملامت ہے، اور اللہ تعالٰی کے  یہاں درجات سے محروم رہتاہے، یہاں تک کہ فقہاءِ کرام فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص ان سنتوں کو صحیح تو سمجھتا ہے، لیکن بلاعذر سنتِ مؤکدہ کو چھوڑنے کی عادت بنالیتا ہے تو یہ گناہ گار ہوگا، لیکن اگر کوئی شخص ان سنتوں کو حق نہ سمجھتے ہوئے چھوڑ دے تو  یہ عمل انسان کو کفر تک پہنچادے گا۔

البتہ اگر کوئی عذر ہو مثلاً: وقت تنگ ہے اور صرف فرض نماز ادا کی جاسکتی ہویاکوئی ضرورت پیش آئی ہو  تو اس وقت سنتوں کو چھوڑ سکتاہے،جہاں تک سنت غیر مؤکدہ کی بات ہے تو اس میں اختیار ہے اگر کوئی پڑھے تو ثواب کا مستحق ہوگا اور نہ پڑھے تو کوئی گناہ بھی نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وسن) مؤكدًا (أربع قبل الظهر و) أربع قبل (الجمعة و) أربع (بعدها بتسليمة) فلو بتسليمتين لم تنب عن السنة، ولذا لو نذرها لايخرج عنه بتسليمتين، وبعكسه يخرج (وركعتان قبل الصبح وبعد الظهر والمغرب والعشاء) شرعت البعدية لجبر النقصان، والقبلية لقطع طمع الشيطان........ترك السنن، إن رآها حقًّا أثم، وإلا كفر..."

(قوله: وسن مؤكدًا) أي استنانًا مؤكدًا؛ بمعنى أنه طلب طلبًا مؤكدًا زيادةً على بقية النوافل، ولهذا كانت السنة المؤكدة قريبةً من الواجب في لحوق الإثم، كما في البحر، ويستوجب تاركها التضليل واللوم، كما في التحرير: أي على سبيل الإصرار بلا عذر، كما في شرحه....."

( کتاب الصلاۃ،باب الوتر والنفل،12/2، ط:سعید)

المحيط البرهاني  میں ہے :

"رجل ترك سنن الصلوات الخمس إن لم ير السنن حقاً فقد كفر، وإن رأى السنن حقاً، منهم من قال: لايأثم، والصحيح أنه يأثم. وفي النوازل: إذا ترك السنن، إن تركها بعذر فهو معذور، وإن تركها بغير عذر لايكون معذوراً، ويسأله الله تعالى عن تركها."

(كتاب الصلاة، الفصل الحادی والعشرون فی  التطوع قبل الفرض،1 / 446، ط: دار الکتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100438

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں