بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

فرض نماز کے بعد اجتماعی دعا اور جمعہ کی نماز کے بعد اجتماعی چندے کا حکم


سوال

1- آج کل مسجدوں میں جو اجتماعی دعاؤں کا طریقہ ہے کہ امام صاحب دعا کرتے ہیں اور پیچھے بیٹھے ہوئے سارے لوگ آمین آمین کہہ رہے ہو تے ہیں، جب کہ مکہ اور مدینے میں نماز کا سلام پھیر نے کے بعد اس طرح کی کوئی اجتماعی دعا نہیں ہوتی، کچھ لوگ اٹھ کر چلے جاتے ہیں اور کچھ لوگ باقی سنت وغیرہ پڑھ رہے ہوتے ہیں۔ معلوم یہ کرنا ہے کے اس کا سنت طریقہ کیا ہے؟ کیا ہمارے نبی صلی اللہ و علیہ وسلم بھی اس طرح دعا کرتے تھے اور پیچھے بیٹھے صحابہ کرام آمین آمین کہتے تھے؟ مہربانی فرما کر قران وسنت کی روشنی میں میری رہنمائی فرمائیں۔

2- ہمارے علاقے میں ایک مسجد ہے، جس میں جمعہ کی نماز کے بعد چند ے کی درخواست کی جاتی ہے اور کہتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ چندہ دیں کم ازکم 100 روپے ضرور دیں۔ برائے مہربانی اس کی بھی رہنمائی فرمائیں کہ یہ طریقہ صحیح ہے یا نہیں ؟

جواب

1)  فرض نماز کے بعد دعا کرنا فرض یا واجب نہیں ہے، تاہم روایات سے ثابت ہے، فرض نمازوں کے بعد کے اوقات حدیث شریف کے مطابق قبولیتِ دعاکے اوقات ہیں،  فرائض کے بعددعاکرنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اورسلف صالحین سے ثابت ہےاور دعا کے آداب میں سے ہے کہ ہاتھ اٹھا کر دعا کی جائے  اور آں حضرت ﷺ سے بھی  دعا میں ہاتھ اٹھانا ثابت ہے۔

’’المعجم الکبیر ‘‘  میں  علامہ طبرانی رحمہ اللہ نے حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے ایک روایت ذکر کی ہے کہ  محمد بن یحیی اسلمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میں نے عبد اللہ بن  زبیر  رضی اللہ تعالیٰ عنہما  کو دیکھا، انہوں نے ایک شخص کو دیکھا کہ  وہ نماز سے فارغ ہونے سے پہلے ہی ہاتھ اٹھا کر دعا کررہا تھا، جب وہ نماز سے فارغ ہوا تو  حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے اس سے فرمایا: رسول اللہ ﷺ جب تک نماز سے فارغ نہ ہوتے  اس وقت تک (دعا کے لیے) ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے ( لہذا تم بھی ایسا ہی کرو)۔

"حدثنا محمد بن أبي يحيى، قال: رأيت عبد الله بن الزبير ورأى رجلاً رافعاً يديه بدعوات قبل أن يفرغ من صلاته، فلما فرغ منها، قال: «إن رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يكن يرفع يديه حتى يفرغ من صلاته»".

(المعجم الكبير للطبرانی 13/ 129، برقم: 324)

 اسی طرح ’’ کنزالعمال‘‘  میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جوبندہ نمازکے بعدہاتھ اٹھاکراللہ تعالیٰ سے دعاکرتاہے اورکہتاہے کہ اے میرے معبود  ...اللہ تعالیٰ اس کی دعا کوضرورقبول فرماتے ہیں، اسے خالی ہاتھ واپس نہیں لوٹاتے۔

حضرت سلمان فارسیؓ سے روایت ہے کہ رسول ﷲﷺنے ارشاد فرمایا: تمہارا رب حیا والا اور کریم ہے، اپنے بندے سے حیا کرتاہے ،جب وہ اپنے ہاتھوں  کو اس کے سامنے اٹھاتا ہے کہ ان کو خالی واپس لوٹا دے ۔

حضرت مالک بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷲﷺنے ارشاد فرمایا : جب تم اللہ سے دعا کرو تو ہاتھوں  کی ہتھیلیوں  سے کرو، ہاتھوں  کی پشت سے نہ کرو ۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں  ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا اپنے ہاتھوں کی ہتھیلیوں  سے سوال کیا کرو اور ہاتھوں  کی پشت سے نہ کرو ،پس جب دعا سے فارغ ہوجاؤ تو  ہاتھوں  کو اپنے چہرے پر پھیر لو ۔

دعا میں  ہاتھ اٹھانا حضور ﷺکی عادتِ شریفہ تھی ، حضرت سائب رضی اللہ عنہ اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں  کہ رسول اللہ ﷺجب دعا فرماتے تھے تو اپنے دونوں  ہاتھ مبارک اٹھاتے اور فارغ ہوتے تو ان دونوں  کو اپنے چہرے پر پھیرتے۔

اس طرح کی روایات فرض نمازوں کے بعدہاتھ اٹھاکراجتماعی دعاکے ثبوت واستحباب کے لیے کافی ہیں؛ اس لیے نماز کے بعد دعاپر نکیر کرنا یا اسے بدعت کہنا درست نہیں۔ تاہم اسے سنتِ مستمرہ دائمہ کہنا مشکل ہے، اس بنا پراس کو ضروری اورلازم سمجھ کرکرنا، اورنہ کرنے والوں پرطعن وتشنیع کرنا بھی درست نہیں۔ اور یہ دعا سر اً افضل ہے، البتہ تعلیم کی غرض سے  کبھی کبھار امام  جہراً بھی دعا کرا سکتا ہے۔

حضرت علامہ محمدانورشاہ کشمیری رحمہ اللہ نے ’’فیض الباری‘‘  میں اور محدث العصر حضرت مولانا محمد یوسف بنوری نوراللہ مرقدہ نے اپنے فتاویٰ میں لکھاہے کہ فرائض کے بعد موجودہ ہیئت کے مطابق اجتماعی دعا کرنا سنتِ مستمرہ تو نہیں ہے، لیکن اس کی اصل ثابت ہے؛ اس لیے یہ بدعت  نہیں ہے، اسے بدعت کہنا غلو ہے۔

اجتماعی دعا کے آداب میں سے یہ ہے کہ اگر امام کی آواز آرہی ہو تو ’’آمین‘‘  کہنا چاہیے، اور ’’آمین‘‘  کہنے والا بھی اس دعا میں شامل سمجھا جاتاہے، قرآنِ مجید میں ایک موقع پر حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السلام کے بارے میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: آپ دونوں کی دعا قبول کرلی گئی، جب کہ روایات میں ہے کہ دعا حضرت موسیٰ علیہ السلام فرما رہے تھے اور حضرت ہارون علیہ السلام اس پر آمین کہہ رہے تھے۔

"عن حبیب بن مسلمة الفهري، وکان مستجابًا، أنه أمَّر علی جیش، فدرب الدروب، فلما لقي العدو، قال للناس: سمعت رسول الله ﷺ یقول: لایجتمع ملأ فیدعو بعضهم ویؤمن سائرهم، إلا أجابهم الله".

(المعجم الکبیر للطبراني، دار إحیاء التراث العربي ۴/ ۲۲، رقم: ۳۵۳۶، المستدرك، کتاب معرفة الصحابة، قدیم ۳/ ۳۹۰، مکتبة نزار مصطفی الباز ۶/ ۲۰۲۳، رقم: ۵۴۷۸، مجمع الزوائد ۱۰/ ۱۷۰)

ترجمہ: حبیب بن مسلمہ الفہری (جو  مستجاب الدعوات تھے) کے بارے میں منقول ہے کہ  انہیں ایک لشکر کا امیر بنایا گیا، جب دشمن سے سامنا ہوا تو انہوں نے لوگوں سے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ  کو فرماتے ہوئے سنا: جب کوئی مجمع جمع ہو اور بعض (کوئی ایک) دعا کرے اور باقی سب آمین کہیں تو اللہ تعالیٰ ان کی دعا قبول فرماتے ہیں۔

"عن محمد بن قیس، عن أبیه، أن رجلًا جاء زید بن ثابت رضي الله عنه، فسأله عن شيء، فقال له زید: علیك بأبي هریرة، فإني بینما أنا وأبو هریرة وفلان ذات یوم في المسجد، ندعو ونذکر ربنا عز وجل إذ خرج علینا رسول الله ﷺ حتی جلس إلینا، فسکتنا، فقال: عودوا للذي کنتم فیه، قال زید: فدعوت أنا وصاحبي قبل أبي هریرة، وجعل النبي ﷺ یؤمن علی دعائنا ... الخ " 

(المعجم الأوسط، دارالفکر ۱/ ۳۳۸، رقم: ۱۲۲۸، المستدرك علی الصحیحین للحاکم، کتاب معرفة الصحابة، مکتبة نزار مصطفی الباز ۶/ ۲۲۱۸، رقم: ۶۱۵۸)

ترجمہ: حضرت قیس مدنی کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت زید بن ثابت ؓ کی خدمت میں حاضر ہو کر کسی چیز کے بارے میں پوچھا، انہوں نے فرمایا: تم جاکر یہ بات حضرت ابوہریرہؓ سے پوچھو؛ کیوں کہ ایک مرتبہ میں، حضرت ابوہریرہ اور فلاں آدمی ہم تینوں مسجد میں دعا کررہے تھے، اور اپنے ربّ کا ذکر کررہے تھے کہ اتنے میں حضورﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اور ہمارے پاس بیٹھ گئے تو ہم خاموش ہوگئے،  پھر فرمایا: جو تم کررہے تھے اسے کرتے رہو،  چناںچہ میں نے اور میرے ساتھی نے حضرت ابوہریرہ سے پہلے دعاکی اور حضور ﷺ  ہماری دعا پر آمین  کہتے  رہے۔ پھر حضرت ابوہریرہ نے یہ دعا کی: اے اللہ! میرے ان دوساتھیوں نے جو کچھ تجھ سے مانگا میں وہ بھی تجھ سے مانگتاہوں اور ایسا علم بھی مانگتاہوں جو کبھی نہ بھولے۔ حضورﷺ نے فرمایا: آمین۔ ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم بھی اللہ سے وہ علم مانگتے ہیں جو کبھی نہ بھولے۔ حضورﷺ نے فرمایا: یہ دَوسی نوجوان (یعنی حضرت ابوہریرہؓ) تم دونوں سے آگے نکل گئے۔

مراقي الفلاح بإمداد الفتاح شرح نور الإيضاح ونجاة الأرواح    میں ہے:

"(ثم يدعو لامام لنفسه وللمسلمين) بالأدعية المأثورة الجامعة؛ لقول أبي أمامة: قيل: يا رسول الله أي الدعاء أسمع؟ قال: "جوف الليل الأخير و دبر الصلوات المكتوبات، و لقوله صلى الله عليه و سلم: "والله إني لأحبك أوصيك يا معاذ! لاتدعن دبر كل صلاة أن تقول: اللهم أعني على ذكرك وشكرك وحسن عبادتك" (رافعي أيديهم) حذاء الصدر و بطونها مما يلي الوجه بخشوع و سكون، ثم يمسحون بها وجوههم فى آخره أي: عند الفراغ."

(باب صفة الصلوة، ص:316، ط:مكتبه رشيديه)

العرف الشذي شرح سنن الترمذي  میں ہے:

"و ليعلم أن الدعاء المعمول في زماننا من الدعاء بعد الفريضة رافعين أيديهم على الهيأة الكذائية لم تكن المواظبة عليه في عهده عليه الصلاة والسلام."

(باب ماجاء فى كراهية ان يخص الامام نفسه فى الدعاء، ج:1، ص:346، ط:دار إحياء التراث العربى)

مزید دلائل کے لیے ”النفائس المرغوبة في الدعاء بعد المکتوبة “ مؤلفہ حضرت مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ صاحب رحمہ اللہ کا مطالعہ فرمائیں۔

2) دینی  ضرورت کے لیے مثلاً مسجد یا مدرسہ یا کسی اور دینی مقصد کے لیے اگر چندہ کی ضرورت ہو تو  چند شرائط کی رعایت کرتے ہوئے مسجد میں چندہ کرنا جائز ہے، وہ شرائط یہ ہیں:

(1) اس سے کسی نمازی کی نماز میں خلل نہ ہو۔

(2) کسی کو تکلیف نہ دی جائے، مثلاً گردن پھلانگنا وغیرہ۔

(3) مسجد میں شور وشغب نہ کیا جائے۔

(4)  چندہ زبردستی نہ لیا جائے اور چندہ نہ دینے پر  کسی کو عار نہ دلائی جائے۔

تاہم بہتر  یہی ہے کہ  اگر  مسجد سے باہر   چندہ کرکے مسجد کی ضرورت پوری ہوسکتی ہے تو چندہ مسجد سے باہر کیا جائے، اور ضرورت پر مسجد میں صرف اعلان کرلیا جائے، لیکن اگر اس سے ضرورت پوری نہ ہو تو مذکورہ بالا شرائط کی رعایت رکھتے ہوئے مسجد میں بھی چندہ کیا جاسکتاہے۔   شدید ضرورت کے مختلف مواقع پر نبی کریم ﷺ کی طرف سے تعاون کا اعلان اور بعض مواقع پر  (جیسے غزوہ تبوک، اور ایک ضرورت مند قبیلے کے وفد کی آمد کے موقع پر) آپ ﷺ کا خود مسجد میں امداد جمع کرنا منقول ہے۔ 

لہذا آپ کی مسجد میں اگر جمعہ کی نماز کے بعد مسجد کے  لیے چندہ کیا جاتا ہے تو مذکورہ بالا شرائط کی رعایت کرتے ہوئے  چندہ جمع کرنے کی گنجائش ہے، لیکن لوگوں کو اپنی خوشی سے چندہ دینے کا اختیار ہونا  چاہیے، اگر واقعتًا زبردستی اور  اصرار کے ساتھ کم از کم سو روپے دینے پر مجبور  کیا جاتاہے تو یہ درست نہیں ہے۔

الدر المختار و حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 164):

"ويكره التخطي للسؤال بكل حال.

(قوله: ويكره التخطي للسؤال إلخ) قال في النهر: والمختار أن السائل إن كان لايمر بين يدي المصلي ولايتخطى الرقاب ولايسأل إلحافاً بل لأمر لا بد منه فلا بأس بالسؤال والإعطاء اهـ ومثله في البزازية. وفيها: ولايجوز الإعطاء إذا لم يكونوا على تلك الصفة المذكورة. قال الإمام أبو نصر العياضي: أرجو أن يغفر الله - تعالى - لمن يخرجهم من المسجد. وعن الإمام خلف بن أيوب: لو كنت قاضياً لم أقبل شهادة من يتصدق عليهم. اهـ. وسيأتي في باب المصرف أنه لايحل أن يسأل شيئاً من له قوت يومه بالفعل أو بالقوة كالصحيح المكتسب ويأثم معطيه إن علم بحالته لإعانته على المحرم". 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144206200552

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں