بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فرض نماز کے بعد دعا کا حکم


سوال

 ہر فرض نماز کے بعد اجتماعی دعا کرنا یہ تو ثابت ہے،  لیکن اس کو لازم سمجھنا بدعت ہے اور دیوبند کے اکابر بھی فرماتےہیں اجتماع کو ضروری سمجھنا اور اس کا اہتمام والتزام کرنا بدعت ہوگا اور ہمارے عوام لوگ اس کو لازم سمجھتے ہیں انہیں نہیں  پتا کہ اس کو لازم سمجھنا بدعت ہے اور امام اس بات کو سمجھا نے  کے لیے کبھی کبھی دعا کو ترک کرتا ہے؛ تاکہ لوگوں کو معلوم ہو کہ یہ اجتماعی دعا لازم نہیں تو لوگ نہیں مانتے اور میرے استاذ بھی فرمایا کرتے  تھے  کہ کبھی کبھی دعا کو ترک بھی کرنا چاہئے تاکہ لوگوں کو معلوم ہو تو یہ لوگ جو اس کو لازم سمجھتے ہیں تو کیا بدعت نہیں  ہوگا اور کبھی کبھی دعا کو کرنا سمجھا نے کے لیے یہ صحیح ہے؟

جواب

 واضح رہے کہ فرض نماز کے بعد دعا کرنا ثابت ہے اور  فرض نمازوں کے بعد کے اوقات حدیث شریف کے مطابق قبولیتِ دعاکے اوقات ہیں،  فرائض کے بعددعاکرنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اورسلف صالحین سے ثابت ہےاور دعا کے آداب میں سے ہے کہ ہاتھ اٹھا کر دعا کی جائے  اور آں حضرت ﷺ سے بھی  دعا میں ہاتھ اٹھانا ثابت ہے۔

 باقی  فرض نمازوں کے بعد اجتماعی دعا فرض اور لازم نہیں ہے، جو لوگ ایسا خیال کرتے ہوں وہ غلطی پر ہیں،  صلحائے امت کے تعامل اور فقہاءِ ملت کی تصریحات کےمطابق فرض نمازوں کے بعداجتماعی دعا فرض ولازم نہیں، لہذا اگر کوئی شخص کبھی کبھی دعا  ترک کرتا ہے؛ تاکہ لوگوں کو معلوم ہو کہ یہ لازم نہیں ہے، اس طرح کرنا درست ہے ۔

حديث ميں ہے :

"وعن أبي أمامة قال: قيل: يا رسول الله أي الدعاء أسمع؟ قال: «‌جوف ‌الليل ‌الآخر ‌ودبر ‌الصلوات ‌المكتوبات»."

(مشکاۃ المصابیح،باب ا؛ذکر بعد الصلاۃ،ج:۱،ص:۳۰۵،المکتب الاسلامی)

فتح الباری میں ہے :

‌‌(قوله باب الدعاء بعد الصلاة)أي المكتوبة وفي هذه الترجمة رد على من زعم أن الدعاء بعد الصلاة لا يشرع."

(باب الدعاء بعد الصلاۃ،ج:۱۱،ص:۱۳۳،دارالمعرفۃ)

معارف السنن میں ہے:

"قد راج في كثير من البلاد الدعاء بهيئة اجتماعية رافعين ايديهم بعد الصلوات المكتوبة، و لم يثبت ذلك في عهده صلي الله عليه و سلم و بالاخص بالمواظبة، نعم ثبتت ادعية كثيرة بالتواتر بعد المكتوبة و لكنها من غير رفع الايدي و من غير هيئة اجتماعية، نعم ثبت دعاؤه صلي الله عليه و سلم برفع اليدين باجتماع بعد النافلة في واقعتين: احدهما واقعة بيت ام سليم رضي الله عنها حين صلي فيه السبحة و دعا لانس، راه مسلم."

(كتاب الصلوة، باب ما جاء في كراهية ان یخص الامام نفسه بالدعاء، جلد 3، ص: 409، ط:سعید)

وفیه أیضاً:

"فهذه و ما شاكلها من الروايات في الباب تكاد تكفي حجة لما اعتاده الناس في البلاد من الدعوات الاجتماعية دبر الصلوات .... و يقول النووي في شرح المهذب: الدعاء للامام و الماموم و المنفرد مستحب عقب كل الصلوات بلا خلاف ..... و بالجملة التزامه كسنة مستمرة دائمة يشكل ان يكون عليه دليل من السنة."

(كتاب الصلوة، باب ما يقول اذا سلم، جلد 3، ص: 123-124، ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402101135

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں