بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فرض نماز اور سنتوں کے درمیان وقفہ کرنا


سوال

فرض اور سنت کے درمیان وقفے کرنا، یعنی سنتیں  تا خیر سے پڑھنا کیسا ہے؟

جواب

سنتوں اور فرض کے درمیان زیادہ  فاصلہ نہ کرنا افضل ہے،  نماز سے پہلے بھی سنتِ مؤکدہ ادا کرکے نماز کے منافی عمل کیے بغیر فرض ادا کرنا افضل ہے، اور جن نمازوں  کے بعد  سنتِ مؤکدہ ہیں،  ان میں بھی مختصر اذکار کرکے سنتیں ادا کرنا افضل ہے،   طویل وظائف اور دعاؤں کا وقفہ نہ کرنا افضل ہے۔

اسی وجہ سے فقہاءِ کرام نے لکھا ہے کہ جن فرض نمازوں (ظہر، مغرب اور عشاء) کے بعد سننِ مؤکدہ ہیں، ان فرض نمازوں کے بعد مختصر دعا پر اکتفا کر کے سنن و نوافل میں مشغول ہو جانا چاہیے، فرض نماز کے بعد جو دعائیں یا اذکار احادیث میں وارد ہیں وہ اذکار پڑھے جائیں یا مختصر دعا کی جائے تو کوئی حرج نہیں ہے، لمبی دعا مانگنی ہو یا طویل اذکار کرنے ہوں تو سننِ مؤکدہ ادا کرنے کے بعد کریں۔

نیز فرض اور سنن کے درمیان دنیاوی باتیں کرنے سے گریز کرنا بھی ضروری ہے؛ کیوں کہ فقہاء کی تصریح کے مطابق اس دوران دنیاوی باتوں میں مشغول ہونے سے ثواب میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔

 باقی فجر کی سنتوں کے حوالے سے رسول اللہ ﷺ کا دو طرح کا معمول منقول ہے،  کبھی فجر کی سنتیں ابتدا میں ادا فرماکر کچھ دیر کے لیے آرام فرماتے، اور کبھی پہلے آرام فرماکر پھر سنتیں ادا فرماتے۔

قاضی عیاض اور دیگر شراح  نے فجر کی سنتوں سے پہلے آرام فرماکر  پھر سنتیں پڑھنے  والی روایت کو راجح قراردیا ہے۔

  اور جن روایت میں فجرکی سنتوں کے بعد سونے کا ذکر ہے وہ عام معمول نہیں تھا،  بسا اوقات رات بھر نمازیں پڑھنے کی وجہ سے کچھ دیر استراحت فرما لیا کرتے تھے۔

بعض شراح نے یہ تو جیہ کی ہے کہ  چوں  کہ آپ ﷺ رات کا اکثر حصہ تہجد اور نوافل میں مشغول رہتے تھے تو فجر کا وقت داخل ہونے کے بعد سنت  پڑھ لینے کے بعد  کبھی استراحت کی غرض سے دائیں کروٹ پر لیٹ جاتے تھے، اگر کسی شخص کا اسی طرح معمول ہو  (یعنی رات میں طویل تہجد کا معمول ہو)  اور وہ بھی اتباعِ سنت  کی نیت سے ایسا کرلے تو ثواب کی امید  ہے۔

لیکن فجر کی سنتوں کے بعد سونے کو لازم سمجھنا، یا رات بھر سوتے رہنا اور فجر کی سنت کے بعد دوبارہ سو جانا   یا گھر میں سنتیں پڑھ لینا اور  مسجد میں آکر سوجانا اور اسے ضروری سمجھنا درست نہیں ہے۔ (مکمل تفصیل کے لیے بذل المجہود 5/466، (عربی)در المنضود2/517 (اردو) ملاحظہ فرمائیں)

 صاحبِ مظاہر حق علامہ قطب الدین  دہلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

’’ مطلب یہ ہے کہ: یہ دونوں رکعتیں چوں کہ فرض نماز کے ساتھ مقامِ علیین میں پہنچائی جاتی ہیں؛  اس لیے ان کو فرض نماز کے بعد زیادہ تاخیر کر کے نہ پڑھو ،تاکہ وہ فرشتے جو اعمال کو علیین تک پہنچاتے ہیں منتظر نہ رہیں، اور ظاہر یہ ہے کہ: ان اوارد واذکار کو جنہیں فرض کے بعد جلدی پڑھنا ثابت ہو چکا ہے ان دونوں رکعتوں کے بعد پڑھنا اس تعجیل (جو احادیث میں فرض کے فورًا بعد اور اوراد واذکار کے پڑھنے کے سلسلے میں ثابت ہے) کے منافی نہیں ہے۔ یا یوں کہنا چاہیے کہ: ان اوراد و اذکار کو ان دونوں رکعتوں کے بعد پڑھنا بعدیت (یعنی حدیث کے اس حکم کہ فرض نماز کے بعد اور اوراد وا ذکار پڑھے جائیں) کے منافی نہیں ہے۔ اس بات کو مزید وضاحت کے ساتھ یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ: پیچھے باب الذکر بعد الصلاۃ میں وہ احادیث گزر چکی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ فرض نماز کے فورًا بعد اوراد و اذکار (جن کی تفصیل ان احادیث میں مذکور ہے) پڑھے جائیں تو اب اگر ان اوراد و اذکار کو فرض نماز کے بعد پڑھنے کے بجائے اس حدیث کی فضیلت کے پیشِ نظر دو رکعت سنتوں کے بعد پڑھا جائے تو  احادیث سے ثابت شدہ تعجیل و بعدیت (یعنی اوراد و اذکار کو فرض نماز کے فوراً بعد پڑھنے کا حکم ) کے خلاف نہیں ہوگا‘‘۔ [مظاہرحق ،کتاب الصلاۃ]

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 530):

"ويكره تأخير السنة إلا بقدر اللهم أنت السلام إلخ. قال الحلواني: لا بأس بالفصل بالأوراد واختاره الكمال. قال الحلبي: إن أريد بالكراهة التنزيهية ارتفع الخلاف قلت: وفي حفظي حمله على القليلة؛ ويستحب أن يستغفر ثلاثاً ويقرأ آية الكرسي والمعوذات ويسبح ويحمد ويكبر ثلاثاً وثلاثين؛ ويهلل تمام المائة ويدعو ويختم بسبحان ربك."

تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے:

"(وَلَوْ تَكَلَّمَ بَيْنَ السُّنَّةِ وَالْفَرْضِ لَايُسْقِطُهَا وَلَكِنْ يَنْقُصُ ثَوَابُهَا) وَقِيلَ: تَسْقُطُ... الخ قُنْيَةٌ".

فتاوی شامی میں ہے: 

"(قَوْلُهُ: وَلَوْ تَكَلَّمَ إلَخْ) وَكَذَا لَوْ فَصَلَ بِقِرَاءَةِ الْأَوْرَادِ لِأَنَّ السُّنَّةَ الْفَصْلُ بِقَدْرِ " اللَّهُمَّ أَنْتَ السَّلَامُ إلَخْ " حَتَّى لَوْ زَادَ تَقَعُ سُنَّةً لَا فِي مَحَلِّهَا الْمَسْنُونِ كَمَا مَرَّ قُبَيْلَ فَصْلِ الْجَهْرِ بِالْقِرَاءَةِ. (قَوْلُهُ: وَقِيلَ: تَسْقُطُ) أَيْ فَيُعِيدُهَا لَوْ قَبْلِيَّةً، وَلَوْ كَانَتْ بَعْدِيَّةً فَالظَّاهِرُ أَنَّهَا تَكُونُ تَطَوُّعًا، وَأَنَّهُ لَايُؤْمَرُ بِهَا عَلَى هَذَا الْقَوْلِ، تَأَمَّلْ".

(كتاب الصلاة، باب الوتر و النوافل، مطلب في تحية المسجد، ٢/ ١٩، ٢٠)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144203200416

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں